علی گڑھ کتابی میلہ : موجودہ قومی تعلیمی پالیسی کا ایک مقصد گلوبل سٹیزن بنانا بھی ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 29-11-2025
علی گڑھ کتابی میلہ : موجودہ قومی تعلیمی پالیسی  کا ایک مقصد گلوبل سٹیزن بنانا بھی ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی
علی گڑھ کتابی میلہ : موجودہ قومی تعلیمی پالیسی کا ایک مقصد گلوبل سٹیزن بنانا بھی ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی

 



علی گڑھ / نئی دہلی :قومی تعلیمی پالیسی کے اندر زبان کے باب میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اس میں تعلیم کے بنیادی تصورات پر ارتکاز کیا گیا ہے اور تدریسی نصاب میں ضروری تبدیلیوں کی سفارش کی گئی ہے۔ 

 علی گڑھ اردو کتاب میلے کے ساتویں دن اردو اور انگریزی زبان کے ناقد اور کالم نگار پروفیسر شافع قدوائی نے اس کا اظہار خیال کیا۔

انھوں نے  کہا کہ موجودہ قومی تعلیمی پالیسی  کا ایک مقصد گلوبل سٹیزن بنانا بھی ہے کیوں کہ آج کے عہد میں ملٹی لنگول ازم  پر زیادہ زور ہے۔

ساتویں دن بھی کئی اہم پروگرام کا انعقاد کیا گیا، قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کا بھی اہتمام کیا گیا جس کا عنوان تھا "قومی تعلیمی پالیسی 2020 اردو زبان: امکانات و مسائل" اس مذاکرے میں بطور پینلسٹ پروفیسر سید امتیاز حسنین اور پروفیسر شافع قدوائی نے شرکت کی۔ ڈاکٹر احمد مجتبی صدیقی نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے۔مقررین نے قومی تعلیمی پالیسی کے اہم نکات اور اہداف و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

ماہر لسانیات پروفیسر امتیاز حسنین نے ملٹی لنگول ازم پر روشنی ڈالتے ہوئے ریجنل لینگویج اور شیڈول لینگویج کے تعلق سے گفتگو کی اور ان تمام خدشات کو بے بنیاد قرار دیا جو اردو کے تعلق سے بہت سے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔

اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر شمس اقبال نے بھی قومی تعلیمی پالیسی کے صحت مند اور افادی پہلؤوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 اردو زبان اور اردو معاشرے کے لیے بھی فائدے مند ہے، اس لیے غیر ضروری خدشات یا وسوسوں کا شکار ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 

ساتویں دن بھی کتاب میلہ میں شائقین میں خاصا جوش و خروش نظر آیا۔ بچوں کی بڑی تعداد نے میلے میں شرکت کی اور اپنے ذوق کی کتابیں بھی خریدیں۔ مقامی اسکول کے طلبہ کی شرکت نے اس کتاب میلے کی رونق میں اضافہ کیا۔جن میں اقرأ پبلک اسکول کے طلبہ و طالبات نے محفل رنگ کے عنوان سے ایک خوبصورت پروگرام پیش کیا۔ اس کی ماڈریٹر عشینہ احمد تھیں اور کو ماڈریٹر محمد اقدس تھے۔  اسکول کی پرنسپل محترمہ فاطمہ ارم اور مینیجر پروفیسر نسیم احمد خان بھی اس پروگرام میں شریک رہے۔ بچوں نے اپنی کارکردگی سے لوگوں کو خاصا متاثر کیا۔ بچوں کا یہ تربیتی پروگرام تھا لیکن انھوں نے احساس دلایا کہ انہیں اپنی ثقافت اور زبان سے گہرا لگاؤ ہے۔ 

آج کتاب میلے میں معروف داستان گو سید ساحل آغا اور ڈاکٹر نیتا پانڈے نیگی نے' خسرو دریا پریم کا' کے عنوان سے میوزیکل داستان پیش کی۔ داستان گوئی کے آغاز سے قبل قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے شال پہنا کر تمام فن کاروں کی عزت افزائی کی اور اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان صدیوں سے بین مذاہب ہم آہنگی کا گہوارہ اور ثقافتی تنوع کا مرکز رہا ہے،‌ جس کی ادبی و شعری نمایندگی اردو کے اولین شاعر امیر خسرو نے بڑی خوب صورتی سے کی ہے، یہ ہمارے لیے نہایت پر مسرت موقع ہے کہ ایسے سدا بہار شاعر کے حوالے سے اس میلے میں میوزیکل داستان گوئی کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور معروف داستان گو اور پرفارمر اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ محبت کی ایک روشن اور تابندہ  علامت کے طور پر خسرو کی شخصیت پورے ہندوستان میں اپنی منفرد پہچان رکھتی ہے،  چاہے کوئی مسلمان ہو یا ہندو ، سکھ یا عیسائی، ہر طبقے میں خسرو کی مقبولیت رہی ہے، اسی وجہ سے آج کی محفلِ داستان گوئی ان پر مرکوز ہے۔ اس میوزکل داستان گوئی سے کثیر تعداد میں سامعین و ناظرین محظوظ ہوئے ۔

چھٹے دن کی سرگرمیا ں
قومی اردو کونسل کے زیراہتمام جاری علی گڑھ اردو کتاب میلے 2025 کے چھٹے دن بھی بڑی تعداد میں شائقین کتب موجود رہے۔ اساتذہ و طلبہ دونوں میں خوشی کی لہر دیکھی گئی۔ کتاب میلے میں آنے والوں کا عام تاثر یہ تھا کہ علی گڑھ میں پہلی بار ایسا کتاب میلہ منعقد کیا گیا ہے، جس میں ہر قسم کی کتابیں دستیاب ہیں اور لوگوں کو آسانی سے مل رہی ہیں۔ بعض طلبہ نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ جن کتابوں کے لیے ہمیں دور دراز کا سفر کرنا پڑتا تھا اور صعوبت برداشت کرنی پڑتی تھی وہ اس کتاب میلے میں بہ سہولت دستیاب ہیں۔ آرٹ کے علاوہ سائنس اور سوشل سائنس کے طلبہ نے یہ بھی محسوس کیا کہ انہیں اس کتاب میلے کے ذریعے اپنے نصابی حصار سے باہر نکلنے میں مدد ملی ہے اور مختلف ثقافتوں سے آشنائی کا موقع ملا ہے۔ کتاب میلے نے انھیں ایک نئی دنیا سے روبرو کیا ہے۔ یقینی طور پر قومی کونسل کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔اس طرح کے میلوں سے پورے معاشرے میں کتاب کلچر کا فروغ ہوگا۔
 
کتاب میلے میں آج بھی مختلف ادبی تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں پہلا پروگرام کلچرل ایجوکیشن سینٹر، اے ایم یو اور قومی اردو کونسل کے اشتراک سے'تہذیب علی گڑھ' کے عنوان سے منعقد ہوا۔ جس میں ایم یو کالج علی گڑھ کے طلبہ نے کلچرل پروگرام پیش کیے۔ اس موقعے پر کالج کے پرنسپل جناب سید محمد حیدر نقوی بھی موجود رہے۔ اس پروگرام میں ان کے ساتھ مہتاب نسیم بھی شریک رہے جنہوں نے موڈریشن کا فریضہ انجام دیا۔ اسی طرح کا دوسرا پروگرام "تخلیق سخن ورکشاپ" کے عنوان سے منعقد ہوا جس میں اردو اور انگریزی شاعری کی باریکیوں پر مختلف ماہرین نے اظہار خیال کیا اور نئے سخنوروں کو اس کے رموز و نکات سے آگاہ کیا۔ اس اہم تربیتی پروگرام میں پروفیسر راشد نہال، ڈاکٹر سرور ساجد، ڈاکٹر فضیلہ شاہنواز شریک ہوئے اور آمنہ عاصم نے اس پروگرام کو موڈریٹ کیا۔
 
کتاب میلے کا تیسرا اہم پروگرام "اردو صحافت میں زبان کا گرتا معیار" کے اہم موضوع پر منعقد کیا گیا۔ جس میں مختلف ماہرین نے اردو صحافت میں زبان کی صورتحال پر اظہار خیال کیا اور اس کے موجودہ لسانی منظر نامے پر روشنی ڈالی۔ اس پروگرام میں معروف اردو صحافی و کالم نگار جناب معصوم مراد آبادی، معروف صحافی و ادیب جناب سراج نقوی، معروف صحافی و ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ ’سچ کی آواز‘ جناب جمشید عادل علیگ بطور پینلسٹ شریک ہوئے جبکہ معروف ادیب و اسکالر ڈاکٹر شفیع ایوب نے اس پروگرام کو موڈریٹ کیا۔ صحافت سے عملی طور پر وابستہ ان افراد نے صحافت اور صحافت کی زبان کے حوالے سے مفید گفتگو کی۔ معصوم مراد آبادی نے بتایا کہ اردو صحافت کا آغاز مشن کے طور پر ہوا تھا مگر اب رفتہ رفتہ صحافت پروفیشن میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ سراج نقوی نے معیاری اردو کے حوالے سے کہا کہ معیاری اردو کا تعلق دراصل عوام سے ہوتا ہے اور معیاری اردو کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ جمشید عادل علیگ نے اردو صحافت کی زبان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گفتگو کی اور کہا کہ زبان بگڑی نہیں ہے، زبان میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اس پینل کے شرکا نے پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کی زبان اور اس کے تقاضوں کے بارے میں بہت ہی بامعنی گفتگو کی۔ اس سیشن میں صحافت کے طلبہ بھی شریک رہے اور انہیں مقررین کے خیالات سے استفادے کا موقع ملا۔