ابوالحسن:غریب بچوں کی زندگی بدلنے والا مسیحا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-07-2021
ابوالحسن بچوں کے ساتھ
ابوالحسن بچوں کے ساتھ

 

 

سندیش تیواری / کانپور

ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں بھی کچی بستی یا جھگی جھوپڑی میں بڑی تعداد میں لوگ آباد ہیں، وہیں وہ اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت کرتے ہیں اور اسی بستی میں ان کی زندگی گزر جاتی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کچی آبادی کے بچوں کی زندگی کو روشن کرنے کا کام کرنا سب کے بس کی بات نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں کے بچوں کو تعلیم سہولت دینا بہت ہی ہمت اور مستقل مزاجی کا کام ہے۔

تاہم اگر کچی آبادی کے بچوں میں علم کی شمع روشن کی جائے تو مہذب معاشرے کی اس سے بڑی مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی ہے۔

انانیت اور اجنبیت کے دور میں انسانیت اور ہمدردی رکھنے والے انسانوں کی کمی نہیں ہے، ابوالحسن اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔

ابوالحسن کا تعلق ریاست اترپردیش کے شہر کانپور سے ہے اور وہ 'ہیومین کائنڈ'(Human Kind) نامی تنظیم کے بانی اور ذمہ دار ہیں۔

ابوالحسن اپنے بچوں کی طرح کچی آبادی کے بچوں میں تعلیم سے لے کر دیگر چھوٹی موٹی ضرورتوں پورا کر، ان کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش میں ہمہ تن گوش ہیں۔

ابوالحسن کو اگر ان بچوں کا مسیحا کہا جائے تو غلط نہ ہوکیوں کہ یہ ان بچوں کا سہارا بنے ہوئے جو ہمارے درمیان تو رہتے ہیں مگر ان کی زندگی ہماری زندگی سے بالکل الگ ہوتی ہے۔

یہ وہ بچے ہیں، جن کی زندگی کی صبح یا تو بھیک مانگنے سے شروع ہوتی ہے یا پھر وہ کوڑا بننے میں گزر جاتی ہے۔

شہر کانپور کے جوہی میل بنگلہ کے رہائشی ابوالحسن کی ایک کوشش نے شہر کی کچی آبادی کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔اب یہ بچے ہاتھوں میں کتابیں لیے،ایک روشن مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

ابوالحسن کی ایک کوشش سے تقریباً 500 بچوں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔

وہ بچے جو بھیک مانگتے تھے یا کچڑا اُٹھاتے تھے، اب وہ سرکاری اسکولوں میں زندگی کے سبق سیکھ رہے ہیں۔

ابوالحسن شہر کی کچی آبادی کے علاقے میں روزانہ جاتے ہیں اور غریب بچوں کو پڑھاتے ہیں۔

ابوالحسن کہتے ہیں، شہر کی جن بستیوں میں لوگ جانے سے کتراتے ہیں؛اگر ان بستیوں کے بچوں کا مستقبل سنور جائے تو وہ زندگی بھر ایسی کوششیں کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تین برس پہلے ہوئی سلم کلاس کی شروعات

ابوالحسن نے تین برس قبل کچی آبادی کے علاقے میں تعلیم کی روشنی پھیلانے کا کام شروع کیا اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ایک بار جب انھوں نے اسکول جانے کی عمر میں بچوں کو کچڑا اُٹھاتے دیکھا تو انہیں خیال ہوا کہ کیوں نہ انہیں تعلیم کی زیور سے آراستہ کیا جائے۔

انھوں نے ان بچوں کے ماں باپ کو تیار کیا کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں، پھر وہ بذات خود شریک ہوئے اور ایک بورڈ لے کسی درخت کی چھاوں میں بیٹھ کر بچوں کو تعلیم دینا شروع کر دیا، پھر انھوں نے سنہ 2019 میں ہیومین کائنڈ نامی تنظیم قائم کی۔

سلم اسکول میں500 بچوں کا داخلہ

ابوالحسن نے تقریباً تین سال پہلے کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب تک 500 سے زیادہ بچے تعلیم یافتہ ہوچکے ہیں اور انہیں سرکاری اسکولوں میں داخلہ مل چکا ہے۔

خیال رہے کہ بچوں کی تعلیم کا سارا خرچ ان کی تنظیم خود اُٹھاتی ہے۔

ان کے کاموں میں دیگر لوگوں نے بھی ان کا تعاون دیا مگر ان کے ساتھی ڈاکٹر رفیق الدین نے بھرپور تعاون دیا۔ وہ ہمیشہ ان کے کاموں میں ان کی مدد کے لیے تیار رہے۔

ڈاکٹر رفیق الدین کے علاوہ دیگر افراد مثلاً ڈاکٹر محمد شکیل، حبیب خان وغیرہ ہیومن کائنڈ کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ان تین سالوں میں انھوں نے بچوں کو ریاضی، انگریزی، ہندی، عام معلومات، عام تاریخ، عام جغرافیہ سکھایا۔

ہیومین کائنڈ کا بنیادی مقصد بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اندرونی صلاحیتوں، فن کی مہارتوں، مختلف سرگرمیوں جیسے ڈرامہ، رقص، مہارت، کام کی کارکردگی، تخلیقی صلاحیتوں کو بھی ترقی دینا ہے۔

چار ریاستوں میں کام

ایک شخص ابوالحسن نے بستی کے غریب بچوں کو تعلیم دلانے اور انہیں سماج کے مرکزی دھارے سے جوڑنے کے لئے پہل کی ہے۔

وہ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ہندوستان کے علاوہ دیگر بہت سارے ممالک میں کچی آبادی کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے ہیں،انہیں تعلیم دلانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ ایسی صورتحال میں ان کی تنظیم نے ان بچوں کو پڑھانے کے لئے جھارکھنڈ ، بہار ، پنجاب اور ریاست اتر پردیش کے دیگر حصوں میں اسکول کھولے ہیں۔

ان کی ٹیم کے کل 14 افراد اور 400 رضاکار یہاں کام کر رہے ہیں۔

ان بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر مختلف قسم کی صلاحیتوں کو بھی اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

مثلاً کوئی ڈرائنگ بنا رہا ہے تو کوئی راکھی بنانے میں دلچسپی لے رہا ہے، اس سے بچوں کی اندرونی صلاحیتیں بیدار ہو رہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ابوالحسن غریب والدین کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔آج ان کی کوششوں سے ان بچوں کا مستقل روشن ہونے جا رہا ہے۔