کشمیر کا ایک گاؤں، جہاں جہیز لینا جرم ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-01-2022
کشمیر کا ایک گاؤں، جہاں جہیز لینا جرم ہے
کشمیر کا ایک گاؤں، جہاں جہیز لینا جرم ہے

 

 

رضوان شفیع وانی، سری نگر

یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا

 یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 ساحر لدھیانوی کا یہ شعر وسطی کشمیر کے بابا وائل گاؤں پر بالکل صادق آتا ہے جہاں جاہلانہ اور غیراسلامی رسوم و رواج اور طورطریقوں کو ترک کر کے سادگی سے شادی کی رسم انجام دی جاتی ہے۔دل کو موہ لینے والے سرسبز و شاداب پہاڑوں اور کھیتوں سے گھرا بابا وائل گاؤں وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل میں واقع ہے جو کہ سرینگر سے تقریباً 30 کلو میٹر دور ہے۔ اسے کشمیر کا 'جہیز سے پاک گاؤں' بھی کہا جاتا ہے۔

گاؤں کی آبادی 1500 سے زیادہ ہے۔ ان کا بنیادی کاروبار اخروٹ کی کاشت اور پشمینہ شالوں کی بُنائی ہے۔ گاؤں والوں کا ماننا ہے کہ جہیز جیسی لعنت نہ صرف سماج کو برباد کرتی ہے بلکہ اس سے اٹوٹ رشتوں کے داغے ٹوٹ جاتے ہیں اور خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔

کشمیر کے دیگر علاقوں میں اگر چہ مغربی روایات کو فروغ دے کر شادی پر لاکھوں روپیے خرچ کرتے ہیں تاہم یہ پوری وادی میں یہ واحد گاؤں ہے جہاں جہیز پر پابندی عائد ہے اور یہ پورے کشمیر کے لیے مثال بنا ہوا ہے۔

گاؤں میں اگر کوئی بھی کنبہ جہیز نہ دینے کی اس روایت کی خلاف ورزی کرتا ہے، یعنی جہیز کا مطالبہ کرتا ہے، تو اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ اقرا بانو کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔ان کی شادی جولائی 2021 میں اسی علاقے میں ہوئی ہے۔ وہ یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری کر چُکی ہے۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے اقرا بانو کہا کہ جولائی 2021 میں بہت ہی سادگی سے ان کی شادی ہوئی ہے۔

گاؤں والوں نے جو جائز طریقہ رکھا ہے اسی کے تحت میری شادی ہوئی۔ میں گاؤں کے اس رواج سے بہت خوش ہیں اور فخر بھی محسوس کرتی ہوں۔وہ کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ گاؤں کے لوگ غریب ہیں اور اُسی وجہ سے سادگی سے شادیاں انجام دیتے ہیں۔

awazurdu

گاوں والوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ کیا کرنا ہے اوبر کیا نہیں 


یہاں کے لوگ بھی امیر ہیں، ان کے پاس اچھی خاصی جائیداد ہے۔ لیکن ہم یہاں غیر اسلامی رسم و رواج کو ترک کر کے سادگی سے شادی کرتے ہیں، تاکہ ہر غریب کی لڑکی کی شادی ہو سکے اور وہ خوشحال طریقے سے اپنی زندگی گزر بسر کرسکے۔

گاؤں کا ہر فرد اس فیصلے سے خوش ہے۔ ابھی تک یہاں گھریلوں تشدد کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ جہیز لینے اور دینے کی روایت کو نوجوان نسل بہت زیادہ سپورٹ کرتی ہے۔ نوجوانوں کے تعاون سے ہی یہ رواج برقرار ہے۔

اقرا کے بقول کشمیر میں ہزراوں لڑکیاں جہیز کی وجہ سے بوڑھی اور برباد ہو گئی ہیں۔ والدین جہیز کے تصور سے پریشان ہیں۔ بہت سارے ایسے والدین بھی ہیں جو جہیز کے لیے رقم جٹانے میں مقروض ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے دنیا میں جہیز لینے اور دینے کا خاتمہ ہو۔

بتایا جاتا ہے کہ آج سے ساڑھے سات سو سال قبل صوفی بزرگ سید بابا عبدالرزاق اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے لیے بغداد سے کشمیر آئے تھے اور انہوں نے اسی علاقے میں قیام کیا تھا۔ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہی ہے، شاید اس بزرگ کی تعلیمات کے اثرات ابھی بھی اس علاقے میں موجود ہے کہ علاقے کے لوگ نے سماجی برائیوں، خرافات اور فضول خرچیوں پر پاک ہیں۔مولوی بشیر احمد شاہ اس گاؤں کا مقامی ہے۔ وہ گزشتہ 30 برسوں سے مقامی جامع مسجد میں بطور امام فرائض انجام دے رہا ہے۔

انہوں نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے لوگوں نے اتفاق رائے سے جہیز پر مکمل پابندی عائد کی ہے۔ اس کے لیے ہم نے باظابطہ طور پر دستاویز تیار کیا ہے جس پر گاؤں کے بزرگ اور ذی حس لوگوں نے دستخط کیا ہے۔ 2021 میں لوگوں نے مل کر ایک اور کاغذ تیار کیا ہے۔مولوی بشیر احمد کے بقول 'اللہ تعالی قران مجید میں فرماتے ہیں کہ اسراف مت کرو، اسراف اللہ کو پسند نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا کہ معاشرہ بگڑ رمیابی ہا ہے۔ فیشن پرستی، ریاکاری، فضول خرچی اور غیر اسلامی رسوم کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، تو ہم نے ایک میٹنگ طلب کی جس میں بزرگ اور زی حس افراد نے شرکت کی اور ہم نے اس میٹنگ میں فیصلہ لیا کہ ہم سب مل کر اس جہیز پر قابو پانے اور اسے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ایک دستاویز تیار کر لیں گے۔ سب لوگوں نے اس پر اتفاق کیا۔

 گاؤں کے لوگوں نے دستاویز کی ایک کاپی ضلع ترقیاتی کمشنر کے دفتر اور تحصیل آفس میں بھی جمع کی ہے، جس پر باضاطبہ طور پرتحریر ہے کہ 'کسی بھی شخص کو دلہن کے خاندان سے زیورات، ٹیلی ویژن، فریج، کپڑے اور دیگر چیزوں کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے۔

awazurdu

بشیر احمد شاہ 


'دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دلہے کی طرف سے لڑکی والوں کو 50 ہزار روپیے دینے ہونگے جن میں سے 20 ہزار روپیے مہر اور باقی 30 ہزار روپیے دلہن کے لیے کپڑے اور دیگر ضروریات کی چیزیں خریدنے کے لیے طے کیا ہے۔

بشیر احمد شاہ کہتے ہیں کہ 'سنہ 2004 میں یہ دستاویز تیار کیا ہے۔ اس پر مقامی امام، بزرگ اور گاؤں کے ذی حس افراد نے دستخط کیا ہے اور یہ عہد کر لیا ہے کہ وہ نہ جہیز لیں گے اور نہ ہی دیں گے۔ ابھی تک ہم لوگ اس پر قائم و دائم ہیں۔بشیر احمد شاہ کے بقول گاؤں کا ہر فرد اس فیصلے سے مطمئن ہیں۔ کسی گھر میں کوئی فساد نہیں ہے، کوئی جگھڑا نہیں ہے۔ ہر ایک نے خوش دلی سے اس فیصلے کو قبول کیا ہے۔ کسی ساس نے بہو سے کبھی یہ نہیں پوچھا ہے کہ آپ میرے گھر میں آئی ہو کیا ساتھ لے کر آئی ہو۔'

گاؤں میں جہیز کی سختی سے ممانعت ہے۔ اگرچہ ابھی تک کسی نے اس فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے تاہم دستاویز کے مطابق جہیز کا مطالبہ کرنے والے کو عبرتناک سزا دی جاتی ہے۔ اس شخص ساتھ سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔

مولوی بشیر احمد کے بقول اُس وقت ہم نے یہ بھی فیصلہ لیا ہے کہ اگر کوئی اس فیصلے کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے ساتھ سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا اور مسجد میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا اور ان کے خاندان میں کوئی مر جائے تو میت کو مقامی قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہیں ہے۔ مولوی بشیر احمد چاہتے ہیں کہ وادی بھر سے لوگ اس رواج کو اپنائے، تاکہ جہیز جیسی لعنت کو جڑ سے ختم کیا جاسکے۔