کرشن جی کے خطبات کا مجموحہ شریمد بھاگوت گیتا،اردومنظوم تراجم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-08-2021
کرشن جی کے خطبات کا مجموحہ شریمد بھاگوت گیتا،اردومنظوم تراجم
کرشن جی کے خطبات کا مجموحہ شریمد بھاگوت گیتا،اردومنظوم تراجم

 

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

شری کرشن کے خطبات کا مجموعہ ہے شریمد بھاگوت گیتا۔یہ دنیا کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے اور ہندووں کا مقدس ترین گرنتھ ہے۔ مہابھارت کے مطابق کروکشیتر جنگ میں سری کرشن نے گیتا کا پیغام ارجن کو سنایا تھا۔ اس میں توحید، کرم یوگ، اور لگن یوگ کی بہت خوبصورت طریقے سے بحث ہے۔

پس منظر

شریمدبھاگوت گیتا کے پس منظر میںمہابھارت کی جنگ ہے۔جس طرح ایک عام انسان اپنی زندگی کے مسائل میں الجھ کر ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیتا ہے اور اس کے بعد کی زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کا خیال اس کے دل میں آتا ہے اسی طرح ارجن جو مہابھارت کا عظیم ہیرو ہے، اپنے سامنے آنے والے مسائل سے خوفزدہ ہو کر زندگی اور چھتریہ دھرم سے مایوس ہوکر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے مگر کرشن اسے اس کی ذمہ دارایاں یاد دلانے کے لئے ایک طویل نصیحت کرتے ہیں۔

ارجن کی طرح ہی ہم تمام کبھی نہ کبھی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیںاور حالات سے مایوس ہوکر اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ بھارت کے رشیوں نے شدید غور کے بعدگیتا کو جمع کیا ہے۔خطبات کرشن کا آخری حصہ’ اپنشد‘ کہلاتا ہے۔

انسانی زندگی کی خاصیت، انسان کو حاصل دانشورانہ طاقت ہے اور اپنشدوں میں موجود علم اس بات پر اکساتا ہے کہ عقل کی حدود کے باہر انسان کیا تجربہ کر سکتا ہے۔

شریمدبھگوت گیتا بدلتے سماجی منظرنامے میں اپنی اہمیت کو بنائے ہوئے ہے اور اسی وجہ سے تکنیکی ترقی نے اس کی دستیابی کو بڑھایا ہے، اور زیادہ قابل فہم بنانے کی کوشش کی ہے۔

دوردرشن پر نشر سیریل مہابھارت میں بھگوت گیتا خصوصی توجہ کا مرکز رہی، وہیں شری کرشن (سیریل) میں بھگوت گیتاکو تفصیل سے پیش کیا گیااور گیتا سے متعلق عام انسان کے شبہات کا ازالہ ارجن کے سوالات کے ضمن میں کرنے کی کوشش کی گئی۔

۔حالانکہ کتابی شکل میں یہ دنیا کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں پہلے سے دستےاب ہے۔ اس کے عربی اور فارسی تراجم تو صدیوں پہلے ہوچکے تھے۔

اردو میں گیتا کا گیان

مہابھارت اور رامائن کے ہندی ترجمے سے پہلے اس کے فارسی اور اردو ترجمے ہوچکے تھے۔ مغل بادشاہ اکبر کے حکم سے ان کتابوں کو سنسکرت سے فارسی میں ڈھالا گیا تھا اورخوبصورت ،رنگین تصویروں سے سجایا گیا تھا۔ مغلوں کے آخری دور میں انھیں اردو کا لباس بھی پہنادیا گیا اور اب تو کئی منظوم ترجمے بھی ان کتابوں کے ہوچکے ہیں۔

اسی طرح ردو زبان میں خاص گیتا کے بھی متعدد ترجمے کئے گئے ہیں۔ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں اس کے ترجمے اور تفاسیر اردو میں موجود ہیں۔

گیتا کا گیان اردو شاعری میں بھی ہے اور جہاں اس کے مفاہیم کو شعراءنے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے، وہیں کئی شعراءنے گیتا کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔گیتا کا اب تک کا آخری منظوم ترجمہ انورجلالپوری نے’اردو شاعری میں گیتا‘کے عنوان سے کیا ہے۔ان کا یہ ترجمہ دیکھیں ، ایسا لگتا ہے گویا قرآن کی آیت الکرسی کا منظوم ترجمہ ہے:

خدا ہے ازل سے ابد تک خدا

نہیں اس کی قدرت کی کچھ انتہا

وہ موجود ہے اور دیکھے سبھی

وہ اِک لمحے کو بھی نہ سوئے کبھی

لطافت بھی بے انتہا اس میں ہے

جو گیانی سنیں وہ صدا اس میں ہے

سبھی کچھ سنبھالے ہوئے ہے وہی

مگر وہ نہ آئے تصور میں بھی

وہ ظلمت نہیں نور ہی نور ہے

اندھیرا تو اس سے بہت دور ہے

اوپر درج مصرعوں میں جہاں سلاست وروانگی ہے وہیں زبان وہ بیان بھی بہت سادہ ہے۔ انھیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا قرآن کا پیغام توحید پیش کیا جارہا ہے۔جس وحدت کا پیغام قرآن کریم میں دیا گیا ہے اسی کی تعلیم گیتا میں بھی ملتی ہے۔نورِ وحدت سے معمور ان اشعار کو ذرادیکھیں جو گیتا کا ہی ترجمہ ہیں:

فضاﺅں میں جیسے ہوائیں رہیں

اسی طرح سب جیو مجھ میں بسیں

مقدس ہوں، پھل دینے والا ہوں میں

مجھے جان لے سب سے اعلا ہوں میں

مرے بیج سے سب جگت جنم لے

برہمانڈ کی سلطنت جنم لے

کئی دیوتاﺅں میں اٹکے ہیں جو

مرے راستے سے بھی بھٹکے ہیں وہ

جہاں گیتا کو منظوم شکل دینے والوں کی فہرست لمبی ہے، وہیں ایسے شاعروں کی بھی کمی نہیں جنھوں نے گیتا کی اہمیت پر نظمیں کہی ہیں۔ذیل کی نظمیں اگوپی ناتھ امن کی ہیں جو انھوں نے مختلف اوقات میں تحریر کی تھیں۔

گیتاجینتی کے جلسے میں

میں ہندو ہوں مجھے تعلیم سے گیتا کی الفت ہے

اُسے الفت بھی کیوں کہیے بڑی گہری عقیدت ہے