نئی دہلی،: وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ہندوستان اور فجی کے تعلقات باہمی اعتماد اور احترام پر قائم ہیں اور دونوں ملک کئی شعبوں میں قریبی تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ فجی کے دارالحکومت سُوا میں 100 بستروں پر مشتمل ایک سپر اسپیشلٹی ہسپتال، ڈائیلاسس یونٹ، ایمبولینس اور عوامی ادویات کے مراکز قائم کیے جائیں گے تاکہ عوام کو سستی اور معیاری صحت خدمات فراہم کی جا سکیں۔
وزیراعظم مودی نے مشترکہ بیان میں کہا کہ صحت مند قوم ہی خوشحال ہو سکتی ہے، اسی لیے ہندوستان فجی کے صحت نظام کو مضبوط بنانے میں عملی تعاون کرے گا۔ اس موقع پر دونوں ممالک نے دفاع اور سلامتی کے شعبے میں ایکشن پلان تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ مودی نے کہا کہ دونوں ملک اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی پوری انسانیت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کے خلاف مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ کھیلوں میں تعاون بڑھانے کے تحت ہندوستانی کوچ اب فجی کرکٹ ٹیم کو تربیت دیں گے۔
وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ فجی کی بحری سلامتی کے لیے ہندوستان تربیت اور آلات فراہم کرے گا، جبکہ سائبر سیکیورٹی اور ڈیٹا پروٹیکشن میں بھی دونوں ممالک تجربات کا تبادلہ کریں گے۔ زرعی تعاون کے ضمن میں انہوں نے بتایا کہ ہندوستانی لوبیا کے بیج فجی کی زمین پر کامیابی سے اگ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان فجی کو 12 ایگری ڈرونز اور دو موبائل مٹی ٹیسٹنگ لیبارٹریاں فراہم کرے گا۔
مودی نے کہا کہ انیسویں صدی میں ہندوستان سے گئے ساٹھ ہزار سے زائد ’گرمیٹیہ‘ بھائیوں نے فجی کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا اور آج بھی وہ اپنی ثقافت اور جڑوں سے وابستہ ہیں۔ وزیراعظم نے فجی کے ’گرمیٹ ڈے‘ کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مشترکہ تاریخ اور قربانیوں کو خراجِ عقیدت قرار دیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ زبان و ثقافت کے شعبے میں تعاون کے تحت فجی یونیورسٹی میں ہندی اور سنسکرت کی تعلیم کے لیے ہندوستانی اساتذہ بھیجے جائیں گے جبکہ فجی کے پنڈت ہندوستان آکر تربیت اور مذہبی تقریبات میں حصہ لیں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی کو فجی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک شمسی توانائی اور قابل تجدید ذرائع میں مشترکہ منصوبے چلا رہے ہیں اور بین الاقوامی شمسی اتحاد، حیاتیاتی ایندھن اتحاد اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے اتحاد میں شراکت دار ہیں۔مودی نے کہا کہ ہندوستان فجی کو بحرالکاہل جزائر کے ساتھ تعاون میں ایک مرکز کے طور پر دیکھتا ہے۔ "اگرچہ ہمارے درمیان سمندر کی وسعت ہے لیکن ہماری خواہشات ایک ہی کشتی میں ہیں۔ ہم ایسے عالمی نظام کے قیام کے حامی ہیں جہاں جنوبی ممالک کی آواز کو نظر انداز نہ کیا جائے اور کسی کو پیچھے نہ چھوڑا جائے۔