دیوبند: شعری مجموعہ "بے خیالی”کا رسم اجراء

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-07-2021
شعری مجموعہ
شعری مجموعہ "بے خیالی”کا رسم اجراء

 

 

دیوبند: فیروز خان

شہر کے عیدگاہ روڑ پر واقع شیخ الہند ہال میں دارالعلوم دیوبند کے استاذ مولانا سلمان بجنوری نقشبندی کی صدارت میں دیوبند کے نوجوان شاعر و معالج ڈاکٹر کاشف اختر کی بہترین شاعری پر مبنی کتاب "بے خیالی”کا رسم اجرا اتر پردیش اردو اکیڈمی کے سابق چیئر مین ڈاکٹر نواز دیوبندی،لکھنؤ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر و فلم اسکرپٹ رائٹر عفیف سراج اور نامور ادیب ونقاد سید وجاہت شاہ کے بدست عمل میں آیا۔

اس موقع پرمولانا سلمان بجنوری نقشبندی نے شعری مجموعہ کے خالق ڈاکٹر کاشف اختر کی شیخصت و شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے ان کا مکمل تعارف کرایا ساتھ ہی بڑے جامع انداز میں ڈاکٹر کاشف

اختر کی علمی و تحقیقی اور طبی خدمات کا بھی تذکرہ کیا۔مولانا سلمان بجنوری نے ڈاکٹر کاشف اختر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ کاشف جنتے اچھے شعر کہتے ہیں اتنے ہی سلیقے سے پیش کرنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر کاشف صرف شاعر ہی اچھے نہیں ہیں بلکہ ایک بہت نیک اور با اخلاق انسان بھی ہیں۔عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی نے ڈاکٹر کاشف اختر کے شعری مجموعہ کو ایک عظیم کارنامہ بتاتے ہوئے کہا کہ دیوبند کی تاریخ میں یہ ایسا پہلا موقع ہے جس میں باپ اور بیٹے کے مجموعہ کلام ان کی حیات میں ہی یک ۔کےبعد دیگر منظر عام پر آئے ہیں۔ 

انہوں نے ڈاکٹر کاشف اختر کے استاذ و والد محترم شمیم کرتپوری کے مجموعہ کلام“مہک“ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کاشف اختر کاپہلا شعری مجموعہ“بے خیالی“ کسی بھی مناسبت سے اپنے والد محترم کے مجموعہ کلام سے کم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاشف بن شمیم کی شاعری صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہر ایک کو اپنا عکس ضرور نظر آئے گا۔کتاب کے مصنف ڈاکٹر کاشف اخترنے کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی اس کتاب میں محبت،بے وفائی،وفاداری، سماج کی برائیوں،اچھائیوں اور ملک کے مسائل کو مختلف عنوان سے غزل اورنظم کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے،اب میرا یہ کلام قارئین کی عدالت میں ہے وہی فیصلہ کریں گے کہ میں اپنی کوشش میں کہاں تک کامیاب ہو پایا۔

پروگرام میں نظامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دینے والے معروف ادیب و قلم کار سید وجاہت شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر کاشف اختر نے اپنی اس کتاب میں حمد،نعت،قتعات، غزل، نظم، اور متفرق اشعار کو جمع کیا ہے، چونکہ وہ استاذ دارالعلوم دیوبند مولانا سلمان بجنوری سے بیعت ہیں تو ان کی شاعری میں اسلامی تہذیب بھی جھلکتی ہے، اور ہم امید کرتے ہیں“بے خیالی”کی رسمِ اجراء تقریب کے بعد بھی ڈاکٹر کاشف اور شمیم کرتپوری کی ایسی بہت سی کاوشیں اور کوششیں منظر عام پر آئیں گی اور ایسی ادبی محفلوں کا انعقاد ہوتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کاشف اختر مبارکباد کے مستحق ہیں انہوں نے اپنے مجموعہ کلام میں نہ صرف اپنی قلبی کیفیات و عاشقانہ شاعری کے جوہر دکھائیں ہیں بلکہ مہندی، بارش، خودکشی، کوچہ جاناں،یادیں،تصویراور میں بھی رخصت ہو جاؤں گا جیسے حساس موضوعات کو اپنی شاعری میں ڈھالاہے۔

استاذ شاعر شمیم کرتپوری نے کہا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں،کاشف کم عمر میں ہی شعر و شاعری میں دلچسپی لینے لگے تھے اور تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد انہوں نے اپنے اشعار مجھے دکھانے شروع کر دئے۔

اللہ کا کرم ہے کہ آج ان کا مجموعہ کلام بھی منظر عام پر آ گیا ہے،ان کے مجموعہ کلام“بے خیالی“میں غزلیں، نظمیں، قطعات وغیرہ سبھی اصناف سخن ہیں۔معروف شاعر و ادیب عفیف سراج نے کہا کہ ڈاکٹر کاشف اختر دیوبند کے ابھرتے ہوئے شاعر،صالح نوجوان اور سنجیدہ و محنتی معالج ہیں، ان کی اس ادبی کاوش کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کاشف اختر کی شاعری دل و دماغ کو معطر کرتی ہے اور متاثر بھی۔

ڈاکٹرکاشف اخترنے ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی فضول بحث میں پڑے بغیر بہترین شاعری کی ہے اور زندگی کے تقاضوں کو برتا ہے۔

ان کی شاعری میں جرات مندانہ فکر موجود ہے۔اور عہد حاضر کا درد پوشیدہ ہے۔دوران پروگرام“بے خیالی”میں شامل ڈاکٹر کاشف اختر کی ایک غزل کوبڑھانہ کے معروف شاعرطارق عثمانی نے گنگناکر محفل کے حسن کو دوبالاکر دیا۔

شاعرزہیر احمد زہیرنے کہا کہ منفرد لب و لہجہ کے شاعرڈاکٹر کاشف اختر کے یہاں شعری جمالیات کہیں مجروح نہیں ہونے پاتی۔

ایک با ہوش شاعر کو جو احتجاج کرنا چاہئے وہ انھوں نے بھی کیا ہے لیکن ان کے یہاں شعری جمالیات کہیں مجروح نہیں ہونے پاتی۔اگر شعری جمالیات مجروح ہو جائیں تو شاعری نعرہ بازی بن جاتی ہے۔

دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے کہا کہ ڈاکٹر کاشف اختر نے بحیثیت شاعر اپنے عہد کے ساتھ جینا سیکھا ہے۔وہ جدید ہوتے ہوئے بھی کلاسیکیت سے قریب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اردو شاعری کا عطر غزل ہے اور ڈاکٹر کاشف اخترکے یہاں یہ عطربھر پورطریقے سے موجود ہے۔ان کے یہاں ایک خاص قسم کا درد بھی ہے جو دلوں کو متاثر کرتا ہے۔

ان کی غزلوں میں نشتریت بھی ہے لیکن یہ نشتریت جس سلیقے سے ملتی ہے وہی سلیقہ دیوبندی شاعری کی پہچان ہے۔مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے کہا کہ ڈاکٹر کاشف کے یہاں تمکنت تو ہے لیکن مصلحت سے گریز ہے۔

قبل ازیں پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور اس کے بعد معروف شاعر ندیم شاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سلام پیش کیا۔

رسم اجراء میں شرکت کرنے والے تمام افراد کومنتظمین کی جانب سے فیس ماسک تقسیم کر ان کے ہاتھوں کو سینی ٹائز ر سے دھلوایا گیا تھا ۔ادباء، شعراء، معالجین، وکلاء، صحافیوں اور دانشوروں پر مشتمل سامعین کی ایک اچھی خاصی تعداد اس تقریب میں شریک تھی۔آخر میں شمیم کرتپوری نے کلمات تشکر ادا کئے۔