ویکسین :سائڈ ایفکٹ کی افواہوں پر دھیان نہ دیں۔ ڈاکٹر اروڑہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-06-2021
کووڈ -19 کے ٹیکے
کووڈ -19 کے ٹیکے

 

 

 کووڈ ٹیکہ کاری کے بعد زیادہ تر افراد کو کسی بھی سائڈ اِفیکٹ(مضراثرات) کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ویکسین مؤثر نہیں ہے ۔

کووڈ – 19 ویکسین کی کم از کم 6 مختلف اقسام جلد بھارت میں دستیاب ہوں گی۔

 این ٹی اے جی آئی میں کووڈ – 19 سے متعلق ورکنگ گروپ کے چیئر مین ڈاکٹر این کے اروڑہ نے کووڈ-19 ٹیکہ کاری سے متعلق عام سوالوں کا جواب دیا

 نئی دہلی: ٹیکہ کاری سے متعلق نیشنل ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کے کووڈ – 19 ورکنگ گروپ (این ٹی اے جی آئی) کے چیئر مین ڈاکٹر نریندر کمار اروڑہ نے بتایا کہ ہم جلد ہی زائڈس کیڈیلا کی طرف سے دنیا کا پہلا ڈی این اے پلازمیڈ ویکسین لا رہے ہیں، جو ہندوستان میں ہی تیار کی گئی ہے۔ دیگر ویکسین، جس کے بازار میں جلد آنے کی ہم امیدکرسکتے ہیں وہ بائیولوجیکل ای ہے، جو ایک پروٹین سب یونٹ ویکسین ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان ویکسین کے ٹرائلز بے حد حوصلہ افزا ہیں اور ہم پر امید ہیں کہ یہ ویکسین ستمبر تک دستیاب ہوں گی۔

بھارتی ایم- آر این اے ویکسین ، جس کو درج حرارت 2-8 ڈگری سیلسیس میں رکھا جاسکتا ہے ، وہ بھی ستمبر تک دستیاب ہوگی۔ دو دیگر ویکسین یعنی نوواویکس، جس کو سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے تیار کیا ہے، اور جونسن اینڈ جونسن بھی جلد عوام کیلئے دستیاب ہونے کی امیدہے۔ جولائی کے تیسرے ہفتے تک بھارت بائیو ٹیک اور ایس آئی آئی کی پیداواری صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

اس سے ملک میں ویکسین کی سپلائی میں اضافہ ہوگا۔ ڈاکٹر اروڑہ نے کہا کہ اگست تک ہمیں امید ہے کہ ایک مہینے میں 30 سے 35 کروڑ ڈوز خریدی جائیں گی اور اس سے ایک دن میں ایک کروڑ افراد کی ٹیکہ کاری کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔

 انہوں نے ہندوستان میں کووڈ – 19 ٹیکہ کاری مہم کے مختلف دیگر پہلوؤں پر بھی بات چیت کی۔ یہ ساری باتیں سائنس و ٹیکنالوجی کے محکمہ او ٹی ٹی -انڈیا سائنس چینل سے ایک انٹرویو میں کہیں۔

 نئی ویکسین کتنی مؤثر ہوگی؟

جب ہم کہتے ہیں کہ بعض ویکسین 80 فیصد مؤثر ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین سے کووڈ – 19 کی بیماری ہونے کے 80 فیصد امکانات کم ہیں۔ انفیکشن اور بیماری کے درمیان فرق ہے۔ اگر ایک آدمی کو کووڈ انفیکشن ہو جاتا ہے لیکن اس میں علامت ظاہر نہیں ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شخص کو صرف انفیکشن ہے، تاہم اگر کسی شخص کو انفیکشن کی وجہ سے ا س کے جسم میں علامت ظاہر ہورہی ہیں تو اس آدمی کو کووڈ بیماری ہے۔ دنیا کی تمام ویکسینیں کووڈ – 19 بیماری کو روکنے کے لئے ہیں۔

ٹیکہ کاری کے بعد سنگین بیماری کے امکانات بہت کم ہیں۔ جب کہ ویکسین لینے کے بعد موت کے امکانات نہ کہ برابر ہیں۔ اگر ایک ویکسین کی افادیت 80 فیصد ہے ، تو ویکسین لینے والے کو 20 فیصد معمولی کووڈ ہونے کے امکانات ہیں۔

ہندوستان میں دستیاب ٹیکے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنےمیں اہل ہیں، اگر 60 سے 70 فیصد افراد کی ٹیکہ کاری کردی جاتی ہے تو وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔ حکومت نے سب سے پہلے پسماندہ برادریوں اور بزرگوں کے درمیان کووڈ – 19 ٹیکہ لگانے کی مہم شروع کی اور اس طرح ہمارے صحت شعبوں پر بوجھ اور ہلاکتوں میں کمی آئی ہے۔

کووڈ – 19 کے سلسلے میں غلط معلومات بہت زیادہ ہیں، براہ مہربانی اس کی وضاحت کریں؟

حالیہ دنوں میں ہریانہ اور اتر پردیش کا سفر کیا اور ان ریاستوں کے شہری اور دیہاتی علاقوں میں لوگوں سے بات چیت کی تاکہ ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ کے مسئلے کو سمجھ سکیں۔ بہت سارے افراد، جن میں زیادہ تر دیہی علاقوں سے ہیں، انہوں نے کووڈ کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور عام بخار کو لے کر وہم کا شکار دکھے ۔ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہت سارے معاملوں میں ہلکے پھلکے کووڈ ہوسکتے ہیں، لیکن جب یہ ایک سنگین شکل اختیار کرلیتی ہے تو یہ بیماری مالی بوجھ کاسبب بن جاتی ہے اور بسا اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔

 یہ بہت حوصلہ افزا ہے کہ ہم ٹیکہ کاری کے ذریعے کووڈ سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ ہم سبھی کو پختہ یقین ہے کہ کووڈ - 19 ٹیکے جو ہندوستان میں دستیاب ہیں وہ مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ میں ہر ایک کو یقین دہانی کرا تا ہوں کہ تمام ٹیکوں کی شدید جانچ کی گئی ہے، جن میں کلینکل ٹرائلز بھی شامل ہیں، جو عالمی طور پر تسلیم شدہ ہیں۔

جہاں تک سائڈ افیکٹ کا تعلق ہے، تمام دنیا بھر کے ٹیکوں سے ہلکے پھلکے اثرات ضرور ظاہر ہوتے ہیں۔ اس میں ہلکے پھلکے بخار، تھکاوٹ، جس جگہ انجکشن لگایا گیا ہے وہاں پر درد وغیرہ، ہونے کا امکان لازمی ہے اور یہ تکلیف ایک یا دو دن کے لئے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کوئی سنگین سائڈ افیکٹ ہے۔ جب بچوں کو باقاعدہ ٹیکہ لگایا جا تا ہے تو ان میں بھی بعض سائڈ افیکٹ ، جیسے بخار ، بدن میں سوجن وغیرہ ہوتی ہے۔ کنبے میں بزرگ افراد جانتے ہیں کہ ٹیکے سائڈ افیکٹ کے باوجود بچوں کے لئے اچھا ہے۔ یہ وقت ان بزرگوں کے لئے ہے جو سمجھتے ہیں کہ کووڈ -19 ٹیکے ہمارے کنبے اور ہمارے سماج کے لئے کتنا اہم ہے۔ لہذا معمولی سائڈ افیکٹ کی وجہ سے ویکسین لینے سے نہیں کترانا چاہئے۔

 ایسی افواہیں ہیں کہ اگر کوئی شخص ٹیکہ لگانے کے بعد بخار کا تجربہ نہیں کرتا ہے تو پھر ویکسینیشن کام نہیں کررہی ہے۔ یہ کتنا سچ ہے؟

 زیادہ تر افراد کووڈ ٹیکہ لگوانے کے بعد کسی بھی سائڈ افیکٹ کا سامنا نہیں کرتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ویکسین مؤثر نہیں ہے۔ صرف 20 سے 30 فیصد افراد کو کووڈ کا ٹیکہ لگوانے کے بعد بخار ہو جاتا ہے۔ کچھ افراد کو تو پہلا ٹیکہ لینے کے بعد ہی بخار ہو جاتا ہے اور دوسرا ٹیکہ لینے کے بعد کسی طرح کا بخار نہیں ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور یہ انتہائی غیر متوقع ہے۔

 کچھ معاملوں کے تعلق سے ایسی خبر ہے، جہاں لوگ دونوں خوراک لینے کے بعد کووڈ – 19 انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں، تو کچھ لوگ ویکسین کی افادیت پر سوال کھڑے کر رہے ہیں۔

 ویکسین کی دونوں خوراکیں لینے کے بعد بھی انفیکشن ہوسکتا ہے، لیکن اس طرح کے معاملے میں بیماری بہت معمولی ہوگی اور سنگین بیماریوں کے امکانات بہت کم ہیں۔ مزید یہ کہ ٹیکہ لگوانے کے بعد اس طرح کے معاملوں سے بچنے کے لئے لوگوں کو کووڈ -19 کے مناسب طور طریقوں پر عمل کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔

لوگوں میں وائرس منتقل ہو سکتا ہے، جس کا مطلب یہ کہ وائرس آپ سے گزر کر کے کنبے کے اراکین اور دیگر افراد تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر 45 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ٹیکہ کاری نہیں کی جاتی ہے تو اموات کی شرح اور اسپتال کا بوجھ ناقابل تصور ہوگا۔ اب جب کہ دوسری لہر نا پید ہو چکی ہے، تو اس کے لئے سارا سہرا ٹیکہ کاری کو جاتا ہے۔

کب تک جسم میں اینٹی باڈیز قائم رہتی ہیں؟ کیا ہمیں کچھ وقت کے بعد بوسٹر خوراک لینے کی ضرورت ہے؟

 ٹیکہ کاری کے بعدجو قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے،اسے واضح طور پر اینٹی باڈیز کی نشونما سے پتہ لگایا جاسکتا ہے جس سے اینٹی باڈیز تیزی سے بنتے ہیں، جس کو دیکھا جاسکتا ہے ہے اور اس کی پیمائش کی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ غیر مرئی قوت مدافعت بھی تیار ہوتی ہے۔ یہ ٹی سیل کے طور پر جانا جاتا ہے جو یا د داشت کی طاقت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

لہذا جب کبھی وائرس داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو پوری باڈی الرٹ ہو جائے گی اور اس کے خلاف کام کرنا شروع کردے گی۔

اس طرح اینٹی باڈی ہمارے جسم کے ایمونٹی طاقت کے لئےنہ صرف علامت ہے بلکہ ویکسین لگوانے کے بعد اینٹی باڈی ٹسٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے، فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا ، اینٹی باڈی ہونا ہمارے جسم میں قوت مدافعت کی واحد علامت نہیں ہے۔ اس لئے ، ٹیکہ کاری کے بعد اینٹی باڈی ٹیسٹ کرانے کی ضرورت نہیں ہے ، پریشان نہ ہوں اوراپنی نیند حرام نہ کریں۔

دوسرا کووڈ – 19 ایک نئی بیماری ہے، جو ڈیڑھ سال پہلے منظر عام پر آئی اور ابھی صرف 6 مہینے ہوئے جب ٹیکے لگائے جارہے ہیں ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ تمام دیگر ٹیکوں کی طرح قوت مدافعت کم از کم 6 مہینے سے ایک سال کے لئے کام کرے گا۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ کووڈ -19 پر ہماری سمجھ بہتر ہوگی، لہذا ٹی -سیلس جیسے عناصر کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ویکسینیشن کے بعد لوگوں کو کب تک سنگین بیماری اور اموات سے بچایا جاسکتا ہے۔ لیکن ، ابھی تک ، ٹیکے لے چکے تمام افراد چھ ماہ سے ایک سال تک محفوظ رہیں گے۔

 ہم نے ایک خاص کمپنی کی ویکسین لی ہے، کیا ہم دوبارہ اسی مخصوص کمپنی کی ویکسین لیں، اگر ہم مستقبل میں بوسٹر ڈوز لینی پڑے تو کیا ہمیں اسی کمپنی کی ویکسین لینی ہوگی؟

 کمپنیوں کے بجائے ہم پلیٹ فارم کے بارے میں بات کرلیتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اس بیماری کے لئے مختلف پروسیس اور پلیٹ فارم ویکسین تیار کرنے کے عمل میں استعمال کئے گئے ہوں۔ چونکہ مینوفیکچرنگ عمل ان ٹیکوں کے لئے مختلف ہیں، ان کا اثر جسم پر اُس طرح نہیں ہوگا۔

دو خوراکوں میں مختلف طرح کی ویکسین لینے کا عمل یا کچھ وقت کے بعد دوبارہ ضرورت کے تحت ویکسین لینے کو انٹرچینج ایبلٹی کہا جاتا ہے۔ یہ سائنسی سوال کے لئے اہم ہے۔ اس پر جواب تلاش کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ہم ان بعض ممالک میں سے ایک ہیں، جہاں مختلف طرح کی کووڈ -19 خوراکیں دی جارہی ہیں۔ انٹرچینج ایبلٹی کی یہ ترتیب قبول کی جاسکتی ہے یا صرف تین اسباب کے لئے تسلیم کی جاسکتی ہے

۔ یہ بہتر قوت مدافعت کی طاقت میں اضافے کے لئے ہے2) یہ ویکسین کی ڈیلوری کے پروگرام کو آسان بناتا ہے

؛ حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔ لیکن یہ انٹر چینج ایبلٹی کو ٹیکوں کی کمی کی وجہ سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے کیونکہ ٹیکہ کاری خالصتا ایک سائنسی رجحان ہے۔

کچھ بیرون ممالک میں ویکسین کے مرکب اور مماثلت پر تحقیق کی جاری ہے، کیا ہندوستان بھی ایسی کوئی تحقیق کر رہا ہے؟

 اس طرح کی تحقیق ضروری ہے اور بھار ت میں جلد ہی ایسی ہی کچھ تحقیقات شروع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا آغاز چند ہفتوں میں ہو سکتا ہے۔ کیا بچوں کی ٹیکہ کاری کے بارے میں تحقیق کی جارہی ہے، ہم کب تک بچوں کے لئے ٹیکہ لگوانے کی توقع کرسکتے ہیں؟

 کو ویکسین ٹرائل 2 سے 18 سال کےعمر کے بچوں کے درمیان شروع کی جارہی ہے۔ ملک بھر کے کئی مراکز میں بچوں پر ٹرائلس کئے جارہے ہیں۔ ہم کو رواں سال ستمبر سے اکتوبر تک کے درمیان ان کے نتائج مل جائیں گے۔ بچوں کو انفیکشن ہو سکتا ہے لیکن اسے سنگین بیماری نہ سمجھیں۔ تاہم بچے وائرس کا ٹرانسمیٹر بن سکتے ہیں لہذا بچوں کی بھی ٹیکہ کاری کی جانی چاہئے۔

 کیا ویکسین سے بانجھ پن ہوسکتا ہے؟

جب پولیو ویکسین ہندوستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں آئی اور اس کو لوگوں کے بیچ دیا جانے لگا تو اس وقت بھی افو اہیں پھیلائی گئی تھیں۔ اس وقت غلط معلومات پھیلا ئی گئی کہ بچے ، جن کو پولیو کی ویکسین دی جارہی ہے، ان کو مستقبل میں بانجھ پن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح کی غلط معلومات ویکسین مخالف لابی کی طرف سے پھیلائی جارہی ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمام ویکسین سخت سائنسی تحقیق سے ہو کر گزری ہیں۔ اس طرح کی ویکسین سے کوئی سائڈ افیکٹ(مضراثرات) نہیں ہیں۔ میں آپ کو مکمل یقین دہانی کرانا چا ہوں گا کہ ہر کوئی اس طرح کا پروپیگنڈہ کرکے لوگوں کو صرف گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔ ہماری اہم ارادہ کورونا وائرس سے اپنے آپ کو، کنبے کو اور سماج کو بچانا ہے۔ اس لئے ہر کسی کو آگے آکر ٹیکے لگوانے چاہئیں۔