کوویڈ بیماری اور اس کے خلاف عملِ ٹِیکا سازی کی سائنس

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-07-2021
 ٹِیکا سازی کی سائنس
ٹِیکا سازی کی سائنس

 



 

awazurdu

ڈاکٹر قاضی سراج اظہر

اسوسیٹ کلینکل پروفیسر مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ

 

کورونا وائرس کے مختلف اقسام ہیں۔ یہ عام طور پر سردی، نزلہ، اور فُلو کا باعث ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ امراض انسان کے لئے نئے نہیں ہیں تو ظاہر ہے ان کے خلاف ہمارے جسم میں قوتِ مدافعت موجود ہوتی ہے۔ لیکن کرونا کا مرض جس کو کووڈ۔19 کہا جاتا ہے، جدید قسم کا مرض ہے یعنی اس مرض کے وائرسس کے خلاف نسلِ انسانی میں قوتِ مدافعت بالکل نا پید ہے۔

اسی وجہ ہے یہ بیماری کافی سُرعت کے ساتھ پھیل کر متعدی وباء کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سارس۔کووڈ۔19 (SARS-CoV) نامی وائرس ہے جو جسم میں تنفسی نظام(Respiratory System) کے ذریعہ داخل ہوتا ہے۔

عام طور پر ہم جب سانس لیتے اور چھوڑتے ہیں تو اس دوران آبی بخارات کا اخراج عمل میں آتا ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا۔ یہ خورد بینی(Microscopic)آبی بخارات کئ سو وائرسس کو اپنے ساتھ لے جانے کے اہل ہوتے ہیں۔

جب کوئی کوویڈ کا مریض کھانستا ہے یا چھینکتا ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ عام طور پر سانس لیتا ہے تو اس دوران بھی آبی بخارات جن میں وائرسس ہوتے ہیں اُن کا مسلسل اخراج ہوتا رہتا ہے۔ جب کوئ صحت مند شخص ان مریضوں کے قریب میں ہوتا ہے تو وائرس سے متاثر آبی بخارات اُن کے پھیپھڑوں کے خلیوں میں داخل ہو کر صحت مند انسان کو کوویڈ میں مبتلہ کردیتے ہیں۔ اس طرح سے یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگ جاتی ہے جو وائرس کی بقاء کیلئے بھی ضروری ہے۔

جب تک اس وائرس کو نئے انسانی اجسام ملتے رہینگے گے یہ مرض نہ صرف پھیلے گا بلکہ اس میں جینیاتی تبدیلی بھی آتی رہے گی جسے ہم میٹیشن(mutation) کہتے ہیں۔

اگر ہمیں اس وباء کو روکنا ہے تو وائرسس کی ترسیل ایک انسان سے دوسرے انسان تک روکنی ہوگی۔ ایک اہم بات ہمیں اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہئیے کہ تا حال کوئ ایسی دوا ایجاد نہیں ہوئ ہے جو وائرس کش(antiviral)ہے یعنی جو وائرسس کو مارتی ہے۔

اس بیماری سے بس دو ہی طریقوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے، یا تو قدرتی طور پر بیمار ہو کر اپنے جسم میں قوتِ مدافعت(immunity) پیدا کی جائے یا مصنوعی طریقے سے جیسے وائرسس کو ہلاک کرکے یا اُن کے خوردبینی اجسام کو الگ کرکے انسانی جسم میں داخل کئے جائیں جن سے ہمارے جسم میں وائرسس کے خلاف مدافعتی قوت پیدا ہوجائے، جسکو ہم ٹِیکا یا ویکسین بھی کہتے ہیں۔

ویکسین یا ٹیکے کے کی پہلی تاریخی شکل ویریولیشن(Variolation)ہے۔ اس کی شروعات خلافتِ عثمانیہ کے دور میں ترکی سے شروع ہوئ جس کو لیڈی مان ٹیگو(Lady Montagu) نے اپنے خطوط میں تفصیل سے درج کیا ہے۔

اس خاتون کا شوہر ترکی میں برطانیہ کا سفیر تھا جو خود چیچک مرض سے متاثر تھا۔ لیڈی مان ٹیگو نے نہ صرف اپنے بچوں کو بلکہ خود کو بھی چیچک کے حفاظتی ٹیکے لگوائے تھے۔ اس زمانے میں چیچک سے شرح اموات 30 فیصد تھی، مگر ٹیکہ لگوانے کی صورت میں صرف ایک فیصد ہو گئی۔ اس کے بعد چیچک کے خلاف باضابطہ مہم کا آغاز برطانیہ میں ایڈورڈ جینر(Edward Jenner) نے شروع کیا جس کو ابتدا میں کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

عوام اور صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس کے خلاف آوازیں اُٹھائیں، شکوک و شبہات کے بازار گرم کئے، جس طرح آج کوویڈ ویکسن کے خلاف کیا جارہا ہے۔ لیکن چیچک کے حفاظتی ٹیکوں کی وجہ سے آج چیچک کا مکمل صفایا ہو چُکا ہے۔

اسی طرح  پولیو  (Polio)،  روبیلا  (Rubella)،  یزلیز  (Measles)، ممپس(Mumps)، ڈائفتریہ  (Diphtheria)،ٹیٹنس(Tetanus)،انفلواینزا(Influenza)، پرٹوسیس(Pertussis)، ایچ پی وی(HPV)، کولیرا  (Cholera)، ہپیٹائٹس بی(Hepatitis B) وغیرہ بیماریوں پر اچھی طرح سے قابو پالیا گیا ہے۔

کووڈ -19 ٹیکوں کے مختلف اقسام ہیں، یہ ٹیکے کوئی 70 فیصد سے 95 فیصد تک جسمِ انسانی میں کوویڈ بیماری کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں یا پھر اس مرض کی شدّت کو بہت ہی کم کردیتے ہیں۔ اب تک کی تمام سائنسی تحقیقات کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ ٹیکے کووڈ-19 بیماری سے اموات، دواخانوں میں داخلے اور آکسیجن کے استعمال کی شرح کو کئ گناہ کم کر چُکے ہیں۔ حالیہ ٹیکا کاری سے جو تحقیقی مقالوں میں اعداد وشمار پیش کئے ہیں وہ کافی مثبت اور حوصلہ افزا ہیں۔ ویکسین سے کوویڈ بیماری کی روک تھام میں کافی اثر پایا گیا ہے۔

میری آپ تمام سے مودبانہ گزارش ہے کہ جو بھی ٹیکہ آپ کو دستیاب ہے ضرور لگوالیں۔ جہاں آئے دن نئ نئ ایجادات سامنے آرہی ہیں وہیں ٹیکہ سازی میں بھی کافی پیش رفت ہوئ ہے۔

اب پہلے کی طرح ٹیکہ تیار کرنے کیلئے کمزور جراثیم یا وائرسس(Attenuated Viruses or Bacteria) کا استعمال نہیں ہوتا؛ بلکہ وائرسس کے وہ اجزا یا اجسام جو ہمارے جسم میں قوتِ مدافعت پیدا کرتے ہیں اُن کا ہمارے جسم میں اندراج کیا جاتا ہے۔

یہ پروٹین یا پروٹین بنانے والے جینیاتی سالمات(mRNA) جسمِ انسانی کے مدافعتی نظام(Immune System) کو وائرس کے خلاف اُکسا کر خلوی یا خون کے رقیق مادے  (cellular and humoral) میں پائے جانے والے مدافعتی ردِّ عمل کو موثر بناتے ہیں۔ میں یہاں کچھ مختلف ویکسینس اور اُن کی ٹیکنالوجی کا ذکر کرنا چاہونگا۔

(1) فائزر(Pfizer)اور ماڈرنا(Moderna)میسنجر آراین اے ویکسنس ہیں۔ یہ ٹیکے وائرس کے اُس جینیاتی حصے کو نکال کر بنائے گئے ہیں جو وائرس کے کانٹے دار سطحی اجسام(Spike Protein) کو بنانے میں کام آتے ہیں، کیونکہ انہی پروٹینس کو شُشی خلیے پہچان کر وائرس کو اپنے اندر داخلے کی اجازت دیتے ہیں اور اس طرح کوویڈ بیماری کی شروعات ہوتی ہے۔ اگر جسم کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے جسم میں مدافعتی اجسام(antibodies, T-Killer cells, cytotoxic T cells) کے ذریعے اس کانٹے دار پروٹین پر روک لگادیں تو اس مرض سے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔

اسی مفروضے کو لیکر یہ کامیاب ترین ٹکنالوجی تیار کی گئ ہے۔ یہ ویکسینس %95 کوویڈ بیماری کے خلاف موثر ہیں۔ یہ دونوں ویکسینس اب تک نئے تبدیل شدہ تمام وائرسس پر کارگر ثابت ہوئے ہیں۔

چونکہ ان ویکسینس میں صرف وائرس کے سالمات کا استعمال ہوا ہے اس لئے ان سے کوویڈ بیماری ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ یہ دونوں ویکسینس کو ذخیرہ کرنے اور ترسیل کیلئے مطلوبہ درجۂ حرارت منفی 70- درکار ہوتی ہے جو ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مشکل پیدا کرسکتی ہے۔ (2)- انڈیا میں تیار کردہ دو ویکسینس ہیں۔ کوویشلڈ(Covishield)اور کوویکسین (covaxin)یہ دونوں بھی فی الحال ہندوستان میں دستیاب ہیں۔

کوویشلڈ کو آکسفورڈ اسٹرازونا(Oxford- AstraZaneca) کے اشتراک سے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا(Serum Institute of India) نے تیار کیا گیا ہے۔ اس ویکسین میں ایک غیر نقصان دہ وائرس(adenovirus) کو لیا گیا ہے جس سے سردی زکام ہوتی ہے۔ اڈینو وائرس کے ڈی این اے (DNA) میں کووڈ وائرس کا کانٹے دار پروٹین(Spike protein) بنانے والا مرنا(mRNA) کا حصہ داخل کیا جاتا ہے۔ یہ ایڈینووائرس(adenovirus) بذاتِ خود غیر فعال ہوتا ہے، اپنی افزائش کرنے کے بجائے، انسانی جسم میں اسپائک پروٹین(spike protein) بنا کر کووڈ وائرس کے خلاف مضبوط اور مستحکم مدافعتی اثر پیدا کرتا ہے۔

اس ویکسین کو عام ریفریجریٹرس (2 سے 8 درجئے حرارت) میں رکھا جاسکتا ہے اس لئے ترسیل اور ذخیرہ کرنے کا زیادہ مسلہ نہیں ہے۔ اس ویکسین میں وائرس کا صرف کچھ جینیاتی حصہ استعمال ہوتا ہے اس لئے غیرمضرہے۔ اس ویکسین کے نتائج %90 موثر ہوئے ہیں۔

کوویکسین(Covaxin)پوری طرح سے ہندوستانی دیسی ساختہ ویکسین ہے جس کو بھارت بائیوٹیک حیدرآباد نے تیار کیا ہے۔ اس ویکسین کی تیاری میں ہلاک شدہ کوویڈ وائرسس (killed viruses) استعمال ہوتے ہیں جو انسانی میزبان جسم میں وائرس کے خلاف مدافعتی طاقت پیدا کرتے ہیں۔

چونکہ یہ ابھی جانچ کے دوسرے مرحلے میں ہے اور پوری طرح سے اس کی افادیت کے اعداد و شمار تحقیقی رسائل میں شائع نہیں ہوئے ہیں، اس لئے عالمی ادارہ صحت(WHO) نے اس کی فی الحال منظوری نہیں دی ہے، مگر اب تک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے یہ %70 موثر ہے۔

اس ویکسین سے ابتدائ مراحل میں چند لوگوں کو الرجیک ری ایکشن ہوئے تھے۔

تاہم  اس کوآئی سی ایم آر(Indian Council of Medical Research)اور نیشنل انسٹیوٹ آف وائرولوجی نے اجازت دے دی ہے۔ یہ ویکسین چونکہ ہلاک شدہ وائرسس سے بنتا ہے اس لئے یہ مضر نہیں ہے۔

کوویکسین اور کوویشلڈ کو دو اقساط میں انجکشن کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ پہلا انجکشن اور دوسرے انجکشن میں 4 سے 12 ہفتے تک کا وقفہ دیا جاسکتا ہے۔ کوویشلڈ کے پہلے انجکشن سے %61 اور دوسرے انجکشن سے %65 ہندوستانی تبدیل شدہ ڈیلٹا کوویڈ وائرس سے تحفظ فراہم ہوسکتا ہے۔ (3)- ان دنوں، ریڈّی لیب روس کے تعاون سے اسپوتنک(Sputnik-V) کی تیاری میں مشغول ہے۔ اس ویکسین میں بھی کوویشلڈ(Covishield) کی طرح ایڈینووائرس(adenovirus)کو ترسیل(Vector) کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ لیکن سپوٹنک میں دو مختلف ایڈینووائرس (adenovirus)لئے جاتے ہیں۔

اب تک یہ ویکسین دو کروڑ سے زائد لوگوں کو دیا جا چکا ہے۔ اس ویکسین کو 60 سے زائد ممالک استعمال کر چکے ہیں۔ اس ویکسین کے لینے سے کوئ پیچیدہ مضر اثرات تاحال سامنے نہیں آئے ہیں۔

یہ ویکسین کافی حد تک محفوظ مانی جارہی ہے۔ اسپوٹنک وی کے تیسرے آزمائشی مرحلے کو سائنسی میڈیکل رسالےدی لینسٹ(The Lancet)میں شائع کیا گیا ہے۔

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ ویکسین کافی محفوظ اور موثر ہے۔ صرف پہلا انجکشن کوئ %70 کوویڈ سے تحفظ پہنچاتا ہے جبکہ دوسرا انجکشن 21 دن بعد %91.8 کووڈ بیماری سے محفوظ رکھتا ہے۔

یہ ویکسین نارمل ریفریجریٹر کے درجۂ حرارت پر سٹور کیا جاتا ہے، یعنی اس ٹیکے کے رسل و رسائل میں کوئ زیادہ مشکلات پیش نہیں آئینگیں۔ سوشیل میڈیا میں جو آئے دن کوویڈ ٹیکوں کے تعلق سے افواہوں کا بازار گرم رہتا ہے اُن پر آپ مطلق کان نہ دھریں۔

جب بھی آپ کی نظر سے ایسی افواہیں سنیں یا پڑھیں تو اُن کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرلیں۔ معلوم کریں، کیا یہ تحقیق شدہ بات ہے؟ کیا یہ کسی سائنسی تحقیق کے نتیجے میں کہا یا لکھا گیا ہے؟

اگر سچ ہے تو پھر اُن تحقیقی مقالوں کے حوالے کہاں ہیں؟ بس ایسے ہی بے بال و پر کی پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ سائنس،تحقیق و تفتیش سے حقیقت کو پانے کی کوشش کا نام ہے۔

اس میں کافی دماغی محنت و عرق ریزی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئ بار ناکامی سے گذرنا بھی ہوتا ہے، جب کہیں جاکر مسائل کے حل یا کوئی نئ ایجاد ظہور میں آتی ہے۔ اسی طرح ویکسین کی تیاری کے مراحل میں پہلے تجربات حیوانی یا انسانی خلیوں پر کئے جاتے ہیں۔ بیماری کا مطالعہ اچھی طرح سے کیا جاتا ہے، پھر اس بیماری کے علاج کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ جسمیں مختلف دواؤں اور ٹیکا سازی پر تحقیق ہوتی ہے۔

جب تمام تحقیقی تجربات اطمینان بخش ہوتے ہیں تو ترقی یافتہ ممالک کے محکمۂ صحتِ عامہ سے انسانوں پر دوا یا ٹیکے کے اثرات کا مزید مطالعہ کرنے کے لئے آزمائشی مراحل(human trials)کی اجازت مانگی جاتی ہے۔ جس کے لئے تحقیق شدہ سائنسی تجربات سے حاصل شدہ اعداد و شمار کو تحقیقی مقالوں کے ذریعہ پیش کرنا ہوتا ہے۔

کُل تین سے چار انسانی آزمائیشی مرحلے(clinical trials) ہوتے ہیں جس کے لئے رضاکار افراد کو لیا جاتا ہے۔ جن کی تعداد کئ سو سے لیکر ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی ہے۔

جیسے فائزر(Pfizer) کا تیسرا مرحلہ پانچ لاکھ افراد پر مشتمل تھا۔ اس عمل میں نصف تعداد کو ٹیکا(Vaccine) دیا جاتا ہے اور نصف افراد کو سادہ محلول(Placebo)، جس کو دوہرا مطالعہ(double blind study) کہا جاتا ہے۔

اس تحقیق میں نہ تو تجربے میں شامل ہونے والے افراد کو پتا ہوتا ہے اور نہ ہی ڈاکٹروں کو معلوم ہوتا ہے کہ کونسا شخص صحیح ٹیکا لے رہا ہے اور کونسا نہیں، سب ٹیکے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ آخر میں جب آزمائش یا ٹرائل (trial) مکمل ہو تا ہے تب سائنسداں ان اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہیں اور ہر آزمائشی مرحلے کے بعد سائنسی تحقیقی مقالہ معہ اعداد و شمار کے محکمۂ امورِصحت و ادویات کو پیش کیا جاتا ہے اور جب تک کہ نتائج مثبت اور حوصلہ افزا نہ ہوں اور علاج موثر نہ نکلے تب تک تحقیق کیلئےاگلے مرحلے کی اجازت نہیں ملتی۔

جیسے کے ایک دوا ساز کمپنی آسٹرازنیکا (AstraZeneca)کو انسانی آزمائشی مر حلے میں روک دیا گیا تھا کیونکہ ہزاروں رضاکار میں سے ایک رضاکار شخص کی موت واقع ہوئ تھی۔

اس ویکسین کے تجربے کو یہ واضح کرنے پر ہی دوبارہ تحقیق کے اگلے مرحلے کی اجازت ملی تھی جب محکمۂ صحت عامہ کو اطمینان ہوگیا کہ اس فرد کی ہلاکت ویکسین سے نہیں ہوئی۔

بہر حال عصرِ حاضر میں طبِّی تحقیق کیلئے کافی سخت قوانین تشکیل دئیے گئے ہیں۔ بہت ہی چھان بین اور سختی سے تفتیش کے بعد ہی ٹیکے کی منظوری دی جاتی ہے، گو کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر ان ٹیکوں کو ہنگامی حالات میں اجازت مل سکتی ہے، لیکن پھر بھی یہ اجازت کافی جانچ پڑتال کے بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔

آج جو بھی ویکسین ترقی یافتہ ممالک اور ادارے عالمی صحتِ عامہ(WHO)سے اجازت لے چُکے ہیں ہمیں اُن پر اعتبار کرکے لے لینا چاہئے۔ ایسے افراد جن کو کسی دوا سے یا کسی چیز سے شدید الرجی ہے تو ٹیکا لینے سے پہلے ڈاکٹر کو مطلع کریں اور رائے لیں۔

جو لوگ کسی وجہ سے ٹیکہ نہیں لے سکتے تو اُن کو محتاط رہنا چاہئے جیسے سماجی فاصلہ(social distancing) اور طبی نقاب(mask) کا استعمال وغیرہ۔ امریکہ میں ہماری ریاست مشیگن میں کوئ 60 فیصد سے زائد افراد نے ویکسین لے لیا ہے۔

اس کا ہم خاطرخواہ اثر دیکھ رہے ہیں۔ کوویڈ بیماری اب بہت کم ترین شرح تک پہنچ چُکی ہے۔

اموات بھی گھٹ کر نہیں کے برابر ہوگئیں ہیں۔ اُمید کرتے ہیں ہندوستان کا ڈیلٹا وائرس(B.1.617.2) جو دنیا کے 73 ممالک میں پہنچ چُکا ہے بشمول امریکہ کے اپنا مہلک اثر نہ دکھائے۔

ڈاکٹر فاؤچی(Dr. Fauci) ڈیلٹا وائرس کو لیکر کافی فکر مند ہیں. فی الحال امریکہ میں اس کی موجودگی %10 ہے۔ ڈیلٹا وائرس %60 زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، خصوصاً 40 سال سے کم عمر والوں میں۔ برطانیہ میں %90 نئے مریض جنہوں نے ٹیکا نہیں لگوایا تھا ڈیلٹا وائرس کا شکار ہیں۔

اب تو حالت یہ ہے کہ تبدیل شدہ ڈیلٹا وائرس میں بھی تبدیلی آگئ ہے جسے اے وائی۔ (AY1)کا نام دیا گیا ہے۔

جتنے دن کووڈ وائرس کو پھلنے پھولنے کے لئے نئے نئے غیر مدافعاتی انسانی اجسام ملتے رہیں گے اتنی دفعہ اس وائرس میں جینیات تبدیلی کے امکانات بڑھتے رہیں گے۔ اس سے پہلے کے موجودہ ویکسینس جو فی الحال کوویڈ بیماری کے خلاف موثر ہیں بے کار ہو جائیں بلا جھجھک سب کو ٹیکا لے لینا چاہئے۔

ہاں، وہ افراد جن کو کوویڈ مرض ہو چکا ہے وہ بھی ٹیکہ لگوالیں اس سے اُن کے جسم میں کوویڈ مرض کے خلاف قوتِ مدافعت اور بڑھ جائیگی ۔

کووڈ کے خلاف ٹیکے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کو دئیے جا سکتے ہیں۔ اسرائیل سے آنے والی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ وہاں اسکولس کے طلبہ اور وہ افراد جنہوں نے ٹیکا نہیں لیا ہے تیزی سے پھیل رہا ہے۔

ان مریضوں میں کثیر تعداد ہندوستان میں تبدیل شدہ ڈیلٹا وائرس کی ہے۔

چونکہ ہندوستان میں مدارس کھُلنے والے ہیں میری منتظمینِِِ مدارس سے احتراماً التجا ہے کہ وہ طلبہ کیلئے تمام احتیاطی تدابیر کا خاص انتظام کریں۔ ہر سُو کووڈ کا ہے منظر خدا خیر کرے حال بے حال ہے اظہر کہ خدا خیر کرے