بڑا خطرہ بن گیا 'منکی پاکس' :ڈبلیو ایچ او کا گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-07-2022
منکی پاکس :ڈبلیو ایچ او کا گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی کا  اعلان
منکی پاکس :ڈبلیو ایچ او کا گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان

 

 

نیویارک: کورونا کے اثر سے ابھی دنیا باہر نہیں آسکی ہے لیکن ایک نیا خطرہ منڈلا نے لگا ہے، جس نے دنیامیں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے- عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے منکی پاکس کو گلوبل ہلیتھ ایمرجنسی قرار دے دیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس نے سنیچر کو کہا ہے کہ منکی پاکس بہت بڑا خطرہ ہے

انہوں نے کہا کہ ’ میں فیصلہ کیا ہے کہ منکی پاکس کا پھیلاؤ عالمی توجہ کا مستحق پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کا معاملہ بن چکا ہے۔ اگرچہ منکی پاکس وسطی اور مغربی افریقہ کے کچھ حصوں میں کئی دہائیوں سے موجود ہے لیکن اس کے براعظم افریقہ سے باہر بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے تک علم نہیں تھاتھا

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے گلوبل ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا مطلب ہے کہ منکی پاکس کی وبا ایک ’غیر معمولی واقعہ‘ ہے جو مزید ممالک میں پھیل سکتی ہے اور اس کے لیے مربوط عالمی ردعمل کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے اس سے قبل وبائی امراض جیسے کورونا، 2014 میں مغربی افریقہ میں ایبولا کی وبا، 2016 میں لاطینی امریکہ میں زیکا وائرس اور پولیو کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کے لیے ہنگامی حالات کا اعلان کیا تھا۔

ہنگامی صورت حال کا اعلان زیادہ تر عالمی وسائل اور وبا کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کی کمیٹی نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں منکی پاکس کا پھیلاؤ ابھی تک بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورت حال جیسا نہیں ہے لیکن صورتحال کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے پینل نے اس ہفتے دوبارہ اجلاس طلب کیا۔

امریکی محکمہ صحت کے مطابق مئی سے اب تک 74 ممالک میں منکی پاکس کے 16 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس مرض سے ہونے والی اموات صرف افریقہ میں رپورٹ ہوئی ہیں، جہاں اس وائرس کی زیادہ خطرناک قسم پھیل رہی ہے۔

افریقہ میں منکی پاکس بنیادی طور پر متاثرہ جنگلی جانوروں جیسے چوہوں سے لوگوں میں پھیلتا ہے لیکن یہ وائرس عام طور پر سرحدوں کو عبور نہیں کرتا۔ ڈبلیو ایچ او کے منکی پاکس کے ماہر ڈاکٹر روزامنڈ لیوس نے رواں ہفتے کہا تھا کہ افریقہ سے باہر مونکی پاکس کے 99 فیصد کیسز مردوں میں تھے۔

ساؤتھمپٹن ​​یونیورسٹی میں عالمی صحت کے ایک سینئر ریسرچ فیلو مائیکل ہیڈ نے کہا ہے کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے پہلے ہی منکی پاکس کو عالمی ایمرجنسی کیوں قرار نہیں دیا حالانکہ یہ حالات کئی ہفتے پہلے ہی پیدا ہو گئے تھے۔

ہنگامی اعلان عام طورپرمزید عالمی وسائل کا رُخ وبا کی طرف مبذول کرانے کی درخواست کے طورپرکام کرتا ہے۔ ماضی کے اعلانات نے ملے جلے اثرات مرتب کیے کیونکہ اقوام متحدہ کا ادارہ صحت رکن ممالک سے کارروائی کروانے میں بڑی حد تک بے اختیارہے۔

گذشتہ ماہ ڈبلیوایچ او کے ماہرین کی کمیٹی نے کہا تھا کہ دنیا بھرمیں منکی پاکس کی وبا ابھی تک بین الاقوامی ایمرجنسی کے مترادف نہیں ہے۔تاہم اس پینل کا صورت حال کا ازسرنوجائزہ لینے کے لیے رواں ہفتے اجلاس طلب کیا گیاتھا۔

امریکا کے مرکزبرائے انسدادامراض اوربچاؤ(سنٹرفار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن) کے مطابق قریباًمئی سے اب تک 74 ممالک میں منکی پاکس کے 16 ہزار سے زیادہ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔البتہ آج تک صرف براعظم افریقا میں آبلۂ بندر سے اموات کی اطلاع ملی ہے جہاں اس وائرس کی زیادہ خطرناک قسم پھیل رہی ہے اور بنیادی طور پر نائجیریا اور کانگو میں اس سے زیادہ متاثرہ مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے۔

افریقا میں، منکی پاکس بنیادی طور پر چوہوں جیسے متاثرہ جنگلی جانوروں سے لوگوں میں پھیلتا ہے۔اس نے ماضی میں کبھی وَبائی شکل اختیار نہیں کی اور نہ یہ کسی متاثرہ ملک سے سرحدپارپھیلی ہے۔ تاہم یورپ، شمالی امریکااور دیگر جگہوں پرمنکی پاکس کا وائرس ان لوگوں میں بھی پھیل رہا ہے جن کا جانوروں سے کوئی تعلق نہیں یا جنھوں نے حال ہی میں افریقا کا سفر بھی نہیں کیا ہے۔

ہم جنس پرست مرد منکی پاکس یعنی آبلۂ بندر کا شکار

ڈبلیوایچ او کے منکی پاکس کے سرکردہ ماہر ڈاکٹر روزمنڈ لیوس نے رواں ہفتے کہا تھا کہ افریقا سے ماورا دوسرے ممالک میں منکی پاکس کے تمام متاثرہ کیسوں میں سے 99 فی صد مرد تھے اور ان میں بھی 98 فی صد وہ مرد شامل تھے جن کے دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔ ماہرین کو شُبہ ہے کہ یورپ اور شمالی امریکا میں منکی پاکس کی وَبابیلجیم اوراسپین میں ہم جنس پرستوں کے درمیان تعلقات کے ذریعے پھیلی تھی۔

ساؤتھمپٹن یونیورسٹی میں عالمی صحت کے ایک سینیر ریسرچ فیلو مائیکل ہیڈ کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات پر حیرت ہے کہ ڈبلیوایچ او نے پہلے ہی منکی پاکس کو عالمی ایمرجنسی کیوں قرارنہیں دیا تھا کیونکہ اس کے حالات تو ہفتوں پہلے ہی پورے ہو چکے تھے۔

کچھ ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس طرح کے اعلان سے مدد ملے گی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ بیماری اتنی شدید نہیں ہے کہ عالمی توجہ مبذول کراسکے۔منکی پاکس سے لڑنے والے امیرممالک کے پاس پہلے ہی اس سے نمٹنے کے فنڈز موجود ہیں۔نیز زیادہ تر لوگ طبی امداد کی ضرورت کے بغیر صحت یاب ہو جاتے ہیں،

اگرچہ زخم تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ ہیڈ نے کہا کہ میرے خیال میں بہت دیر ہونے پررد عمل کا انتظار کرنے کے بجائے اس مسئلے پر متحرک ہونا اور حد سے زیادہ رد عمل ظاہرکرنا بہتر ہوگا۔ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی اعلان سے عالمی بینک جیسے عطیہ دہندگان کے ذریعے مغرب اور افریقادونوں میں پھیلنے والی وبا کو روکنے کے لیے فنڈز مہیا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

امریکا میں کچھ ماہرین نے یہ قیاس آرائی بھی کی ہے کہ کیا منکی پاکس ملک میں سوزاک،آتشک اور ایچ آئی وی جیسی جنسی طور پر پھیلنے والی بیماری بن سکتی ہے۔ییل یونیورسٹی میں صحت عامہ اور وبائی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر البرٹ کو نے کہا کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ ہم نے منکی پاکس کی وبائی مرض میں تبدیلی دیکھی ہے جہاں اب وسیع پیمانے پرغیر متوقع منتقلی ہو رہی ہے۔ وائرس میں کچھ جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے لیکن ہمیں اس قابوپانے کے لیے عالمی سطح پر مربوط ردعمل کی ضرورت ہے۔