یورپ منکی پوکس کے پھیلاؤ کا مرکز: عالمی ادارہ صحت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
یورپ منکی پوکس کے پھیلاؤ کا مرکز: عالمی ادارہ صحت
یورپ منکی پوکس کے پھیلاؤ کا مرکز: عالمی ادارہ صحت

 

 

لندن : عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بدھ کو خبردار کیا ہے کہ یورپ عالمی سطح پر منکی پوکس کے پھیلاؤ کا مرکز بن چکا ہے جو خطے میں 15 سو سے زیادہ کیسز کے ساتھ ’حقیقی خطرے‘ کا باعث بھی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے گذشتہ روز یعنی منگل کو اعلان کیا تھا کہ وہ اگلے ہفتے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرے گا جس میں اس وبا کی بین الاقوامی سطح پر ایمرجنسی کے طور پر درجہ بندی کرنے کے بارے میں غور کیا جائے گا۔

 یورپ کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر ہانس کلوج نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’یورپ اس پھیلتی ہوئی وبا کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں 25 ممالک میں 1500 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جو دنیا بھر کے تمام کیسز کا 85 فیصد ہیں۔‘ عالمی ادارے کے تحت یورپی خطے میں 53 ممالک شامل ہیں جن میں وسطی ایشیا کے کئی ممالک بھی شامل ہیں۔

ہانس کلوج نے مزید کہا: ’اس وبا کی شدت ایک حقیقی خطرہ ہے۔ وائرس جتنا زیادہ گردش کرے گا اتنا ہی زیادہ اس کی رسائی بڑھے گی اور دیگر ممالک میں یہ مرض پھیلتا چلا جائے گا۔‘ گذشتہ کئی مہینوں تک منکی پوکس عام طور پر مغربی اور وسطی افریقہ تک محدود تھا۔ کلوج نے کہا کہ یورپ میں رپورٹ ہونے والے زیادہ تر کیسز ہم جنس پردست مردوں سے پھیلے ہیں تاہم انہوں نے زور دیا کہ ’منکی پوکس وائرس کو کسی مخصوص گروپ سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔‘

عالمی ادارہ صحت کے علاقائی ڈائریکٹر نے خبردار کیا کہ خطرہ بڑھ رہا ہے کیوں کہ موسم گرما میں سیاحت، مختلف پرائیڈ ایونٹس (ہم جنس پرستوں کا تہوار)، میوزک فیسٹیولز اور دیگر بڑے اجتماعات پورے خطے میں منعقد کیے جائیں گے۔ کلوج کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یورپی پرائیڈ آرگنائزرز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر سٹیو ٹیلر نے کہا کہ پورے یورپی خطے میں تقریباً 750 پرائیڈ ایونٹس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور انہوں نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ان تقریبات کو منسوخ نہ کرنے کی سفارش کا خیرمقدم کیا۔

یورپی یونین نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ اس نے وبا سے نمٹنے میں مدد کے لیے ویکسین کی تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار خوراکیں خریدی ہیں لیکن ڈبلیو ایچ او نے ابھی تک منکی پاکس کے خلاف بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم کی سفارش نہیں کی ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت ان رپورٹس کا جائزہ لے رہی ہے کہ کیا منکی پوکس وائرس مریضوں کے سپرمز میں موجود ہیں تاکہ اس امکان کو تلاش کیا جائے کہ یہ وبا جنسی طور پر منتقل ہو سکتی ہے یا نہیں۔

تاہم عالمی ادارے نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وائرس بنیادی طور پر قریبی باہمی رابطے سے ہی منتقل ہوتا ہے۔ یورپ میں منکی پوکس کے بہت سے کیسز کی تصدیق ان ہم جنس پرست مردوں میں ہوئی ہے جن کا افریقہ سے تعلق رکھنے والے سیکس پارٹنرز سے قریبی رابطہ رہا تھا۔ حالیہ دنوں میں سائنسدانوں نے اٹلی اور جرمنی میں منکی پوکس کے کچھ مریضوں کے سپرمز میں وائرل ڈی این اے کا پتہ لگایا ہے۔

تحغقیق میں ایک لیبارٹری ٹیسٹ بھی شامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک مریض کے سپرمز میں پایا جانے والا وائرس کسی دوسرے شخص کو متاثر کرنے اور اس کی نقل تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مختلف وائرسز کی ایک رینج سے وائرل ڈی این اے، بشمول زیکا وائرس، سپرمز میں پایا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ جینیاتی مواد کی موجودگی جنسی منتقلی کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی مینیجر کیتھرین سمال ووڈ نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا حالیہ رپورٹس کا مطلب ہے کہ منکی پاکس وائرس جنسی طور پر منتقل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ وہ چیز ہوسکتی ہے جس کے بارے میں ہم اس بیماری سے پہلے لاعلم تھے۔ روئٹرز کے مطابق مئی کے اوائل سے تقریباً 30 ممالک، زیادہ تر یورپ میں، منکی پاکس کے 13 سو سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر کیس ایسے مردوں میں رپورٹ ہوئے ہیں جن کا مردوں کے ساتھ جنسی تعلق تھا۔