کورونا کی تیسری لہر : براہ کرم ، بچوں کو بچائیں

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-06-2021
بچوں کو بچائیں
بچوں کو بچائیں

 



 

 پرتیبھا   /بنگلورو

کورونا کے بے رحم حملوں سے محتاط بنگلورو کے جے پی نگر میں پرتھنا (نام تبدیل) کا کنبہ ، کوو ڈ پروٹوکول کی پیروی کرنے کے حوالے سے انتہائی حساس تھا ۔ پرتھنا 3 ہفتے قبل وہ سائیکلینگ کے لئے باہر نکلی تھیں ۔وہ آج بھی حیرت زدہ ہیں کہ ڈبل ماسک اور دستانے پہننے کے باوجود وائرس نے آخر اسے کیسے لپیٹ لیا۔ کورونا ٹیسٹ کے مثبت آنے کے بعد وہ اپنی والدہ سے کہتی ہیں کہ میں نے تو اپنا بیشتر وقت خود سے بات کرتے ہوئے گزارا ہے، آخر میں کیسی زد میں آ گئی ۔

پرتھنا کی والدہ پریا (نام تبدیل ) کہتی ہیں کہ جب میری دوسری بیٹی کو کووڈ ہوا  تب میں زیادہ پریشان نہیں ہوئی ۔ لیکن بڑی بیٹی پرارتھنا کے کم بولنے کی عادت کی وجہ سے پریا کو خوف تھا کہ شاید ان کی بیٹی کورونا کی علامات کے حوالے سے زیادہ نہ بتا پائے۔ وہ کہتی ہیں کہ “پرتھنا تنہائی کو پسند کرتی ہے ۔ اور وہ بہت زیادہ ریزرود ہے۔ مزید یہ کہ مجھے ہر چند گھنٹے کے بعد ا سے فون کرنا پڑتا تھا کہ وہ اپنے طبی اشاریوں کو نوٹ کرے اور اس کی جانچ پڑتال کرتی رہے۔

بے احتیاطی سے بچیں

کرناٹک میں کورونا کی تیسری ممکنہ لہر کے پیش نظر کورونا وار روم سے ملنے والی معلومات بچوں سے متعلق چونکا دینے والے اعداد و شمار کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ مارچ 2020 سے 29 مارچ 2021 تک کورونا سے متاثرہ بچوں کی تعداد (0 سے 9 سال کے درمیان) 27000 تھی جبکہ اس دوران 28 بچے لقمہ اجل بن چکے تھے ۔ اسی عرصے میں 10 سے 19 سال کی عمر کے 64،806 بچوں میں یہ وائرس پایا گیا جس میں 46 کی موت ہوگئی۔

لیکن ، رواں سال 29 مارچ 2021 سے 18 مئی 2021 تک کے اعدادوشمار کے مطابق کوو ڈ سے متاثرہ 0 سے 9 سال کے عمر کے بچوں کی تعداد 40،013 تھی ۔ ان میں سے 15 افراد کی زندگیاں وائرس نے نگل لیں ۔ اور اسی مدت میں 10 سے 19 سال کی عمر کے 1،05،789 افراد کا کورونا ٹیسٹ مثبت پایا گیا جن میں 16 اموات ریکارڈ کی گئیں۔

پچھلے دو ماہ کے دوران اس میں 80 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستان میں کوو ڈ کی تیسری لہر بچوں کو سب سے زیادہ متاثر کر سکتی ہے ۔

پریا کہتی ہیں کہ دوسری لہر تو پہلے ہی ظالمانہ رہی ہے۔ میں نے اپنے والد کو کوو ڈ میں کھو دیا۔ میری دوسری بیٹی پرینا (نام تبدیل کر دیا) کا ٹیسٹ مثبت آیا ۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ 17 دن قرنطینہ میں رہے۔ خوش قسمتی سے ، پرینا کا مجھ سے لگاو ہے اور وہ میرے ساتھ رہ سکتی ہے۔ لیکن میں اپنے سسرال والوں کے لئے پریشان تھی جو کورونا سے متاثر تھے - تاہم انہیں سکون ہے کہ تمام افراد خوش اسلوبی سے صحت یاب ہو گیے ۔ پھر بھی کوو ڈ کے خوف کا عنصر تو ان کے دماغ پر سوار رہتا ہی ہے۔ پریا کہتی ہیں کہ چھوٹی بیٹی پریرنا 10 سال کی تھی جب مجھے کورونا کی وجہ سے اس سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی ۔ اور ایمانداری سے ، وہی تھی جس نے مجھے اس دوران ذہنی طور ور سنبھال کر رکھا۔ اب مجھے تیسری لہر کے بارے میں سخت تشویش ہو رہی ہے ۔

صحت یاب بچوں کی مشکلات

اگرچہ کوو ڈ سے متاثرہ زیادہ تر بچوں میں یوں تو علامتیں ظاہر نہیں ہوئیں لیکن ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ ان کے جسم میں شاید بعد میں پیچیدگیاں پیدا ہوں ۔

بنگلورو کے ساکرا ورلڈ ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر سائی شنکر کہتے ہیں کہ بچوں میں ایک پیچیدگی ذیابیطس کی ہے۔ میں نے آج صبح ہی دیکھا کہ ایک 9 سالہ بچہ کا شوگر لیول 600 تک پہنچ گیا ۔ بچہ کورونا سے متاثرتھا ۔ اس حقیقت کا لوگوں کو علم نہیں ہے ۔ میں ان بچوں کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں جو غیر علامتی کورونا سے متاثر ہیں ۔ وہ بہت ساری دوسری طبی پیچیدگیوں سے دوچار ہوسکتے ہیں ۔

ڈاکٹر سائی شنکر مزید کہتے ہیں کہ ایک فیصد تک بچے شدید علامات سے دوچار ہو سکتے ہیں ۔ ایک فیصد لاکھوں بچوں پر مشتمل تعداد ہوگی ، "کیا یہ خوفناک نہیں ہے؟اب تک جو کچھ ہوا ہے ہمیں اس سے سبق سیکھ لینا چاہئے تھا ۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اگلی لہر بچوں کو متاثر کرے گی۔ افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے سے ہی اس کی احتیاط کریں ۔

ڈاکٹر سائی شنکر کے مطابق وائرس سے لڑنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو ویکسین اورکوو ڈ پروٹوکول کی مکمل پیروی ۔ دوسرا ہے ہرڈ امیونٹی ۔ کوو ڈ ہمیشہ خود کی ساخت تبدیل کرنے ، مزید مہلک بننے ، یا نئے میزبان تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بیشتر بالغ افراد کو ہی ویکسین کے حوالے سے ترجیح دینے کی صورت میں بچے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اگلی لہر بچوں کے لئے مہلک ثابت ہوسکتی ہے ۔

حکومت کتنی تیار ہے؟ کرناٹک کی خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزیر ششیکلا جولی نے اعلان کیا کہ حکومت تمام 30 اضلاع میں بچوں کے لئے خصوصی کوو ڈ کیئر سنٹر قائم کرے گی۔ اس کے علاوہ ، وزیر نے اس حقیقت پر زور دیا کہ حکومت کورونا وائرس کے ذریعہ یتیم بچوں (0 سے 18 سال) کی سماجی باد آباد کاری کے اقدامات بھی متعارف کرائے گی۔

کرناٹک کے نائب وزیر اعلی ڈاکٹر سی این اشوناتھرنائن کہتے ہیں کہ بچوں میں بیماری کی وجہ سے اموات کی شرح بہت کم ہے ۔ لہذا وہ اپنے بہتر مدافعتی نظام سے مزید فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ لیکن کیا اس نئی نئی شکلوں میں آنے والے وائرس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ وزیر موصوف مزید کہتے ہیں کہ تیسری لہر میں بچے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں ۔ اس حوالے سے موجود اعداد و شمار پر مزید تحقیق شروع ہوچکی ہے۔ بچوں کے لئے ویکسین کے ٹرائل شروع ہوگئے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ معاملات کیا شکل اختیار کرتے ہیں۔ ایک بار جب ویکسینیں دستیاب ہوجائیں گی ، ویکسینیشن کا عمل پورے زور سے طے کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچرکی بھی توسیع کی جائے گی ۔

کانگریس کے رہنما سدارامیا نے سوال کیا کہ کرناٹک کے اسپتالوں میں بستر کی کمی ، آکسیجن کی کمی اور ویکسین کی کمی کی صورت میں حکومت تیسری لہر کو کس طرح سنبھالے گی۔ انہوں نے الزام عاید کیا کہ حکومت نے دوسری لہر کو نظرانداز کیا ۔ خیر، اب 18 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ویکسینیشن حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے۔

بنگلورو کے رہائشیوں کی خدمات

بنگلورو میں وائٹ فیلڈ رائزنگ کے رضاکاروں کے ایک گروپ نے معاشی طور پر نادار پس منظر کے بچوں کی مدد کے لئے تین سنگرودھ مراکز اور ایک کوویڈ کیئر سنٹر قائم کیا ہے۔ غریب طبقے کے ان بچوں کی مدد کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے نوڈل آفیسر اوما مہادیوان نے ایسے رضاکار گروہوں کو ساتھ ملانے کا قدم اٹھایا ہے ۔ وائٹ فیلڈ رائزنگ کے ممبران نے کے آر پورم کے قریب میڈاہلی میں ایک کوویڈ کیئر سنٹر قائم کرنے کے لئے آہن واہن اور ڈریم انڈیا نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ مدر ہڈ اور رینبو ہاسپٹل کے ساتھ معاہدہ کیا ہے ۔ یہاں 75 بچوں کی رہائش کا انتظام ہے ۔

وائٹ فیلڈ رائزنگ کی ایک ممبر ز بی جمال نے کہا کہ ہم ان مراکز کی دیکھ بھال کے لئے فنڈ جمع کررہے ہیں۔ اسے 4 ماہ تک چلانے کے لئے ہمیں 1.75 کروڑ روپئے درکار ہوں گے ۔ ز بی کے مطابق اس بار کہیں زیادہ تعداد میں خاندان متاثر ہوئے ہیں ، اور زیادہ بچے یتیم ہوگئے ہیں۔ بچے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ وہ تو تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں لیکن گھر کے بڑے افراد وائرس سے دوچار ہو رہے ہیں اور اس طرح بچے یتیم بھی ہو رہے ہیں ۔

جب کورونا ختم ہوجائے گا

پریا اپنی چھوٹی بیٹی کو روزانہ صبح جگاتی ہے ، کوو ڈ ختم ہونے کے بعد کے اپنے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ میری بیٹی کو چھٹی پر جانے ، اپنے دوستوں کے ساتھ تالاب میں تیراکی کرنے کا شدت سے انتظار ہے - پریا اپنی بیٹی کی خواہش پوری کرنے کے لئے بے قرار ہیں - وہ ایسی خواہش کرنے والی واحد ماں نہیں ہیں, ملک کی کروڑوں مائیں اسی دن کی منتظر ہیں جب کورونا کی یہ وبا پوری طرح ختم ہوگی اور وہ اپنی پرانی زندگی کی رنگینیوں کو دوبارہ حاصل کر سکیں کی ۔