ہم سب خاموشی اور محبت کو فراموش کرچکے ہیں: سِتارِہ اسکندری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-11-2021
ہم سب خاموشی اور محبت کو فراموش کرچکے ہیں: سِتارِہ اسکندری
ہم سب خاموشی اور محبت کو فراموش کرچکے ہیں: سِتارِہ اسکندری

 


خموشی میں، آپ محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں:آئی ایف ایف آئی 52ورلڈ پینورما فلم ’’دی سن آف دیٹ مون‘‘کے ڈائریکٹر سِتارِہ اسکندری

ہم سب خاموشی اور محبت کو فراموش کرچکے ہیں، میں اپنی فلم کے توسط سے محبت کی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں اور خواتین کے حقوق اور آزادی کو دکھانا چاہتاہوں:سِتارِہ اسکندری

بلوچستان میں خواتین کے حقوق اور آزادی پر مرکوز ’’دی سن آف دیٹ مون‘‘،کا آئی ایف ایف آئی52میں پریمیئر

ستیہ جیت رےمیرے لیے ایک رول ماڈل رہے ہیں

گوا: ایک بیوہ کا دُکھ جو اُسے چپ رہنے اور اب اور نہیں بولنے کا فیصلہ لینے کےلئے متحرک کرتاہے۔اُس کے بچپن کے ہم جماعت کا پھر سے داخلہ جو اُس کے زخمی دل میں محبت کی شمع پھر جلا دیتا ہے۔پہلی ایرانی ہدایت کارہ ستارہ اسکندری کی بلوچ فلم دی سن آف دیٹ مون محبت کرنے والوں کو بیبن کی اندوہناک داخلی دنیا اور دقیا نوسی معاشرے میں ایک اہم شاہراہ فراہم کرتی ہے، جس کے لئے اس کے بچپن کی محبت کا پیچھا کرنا ممنوع ہے۔

بلوچی میں خورشیدِآن مہ کے نام مشہور اَ س فلم کا بھارت میں چل رہے 52ویں بین الاقوامی فلم فیسٹول میں ورلڈ پریمیئر ہوچکا ہے۔اس فلم کو کہ جس میں سیستان اور بلوچستان کے جنوب –مشرقی ایرانی صوبوں کی صورتحال دکھائی گئی ہے، فیسٹول کے ورلڈ پینورما سیکشن میں فلم شائقین کےلیے پیش کیاگیا ہے۔

بیبن کے توسط سے ہدایت کارہ باہرین دنیا کو ایرانی خواتین کی عام زندگی اور اُن لوگوں کی قدر کم مشہور ثقافت کو دکھانا چاہتی ہیں۔ اِس فیسٹول سے الگ ہٹ کر کل یعنی 25نومبر 2021ء کو ایک اخباری کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے ہداہت کارہ نے اُس تحریک کے پس منظر پر روشنی ڈالی ، جس نے اُنہیں فلم بنانے کے لئے متحرک کیا۔’’موجودہ سماجی-ثقافتی رویے اور روایت کے خوف سے بیبن کی محبت کا آغاز ہوتا ہے اور خموشی کی حالت میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔‘‘

ایک بیوہ ہونے کے ناطے جاری سماجی –ثقافتی معیارات اور روایتوں کے مطابق بیبن اپنے بچپن کے پیار کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔فلم بلوچستان خطے کی خواتین کی سچی کہانیوں کو پیش کرتی ہے، جو میڈیا میں ٹھیک ڈھنگ سے نہیں دکھائی دیتی ہیں۔اسکندری نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ میری فلم اِن خواتین کو آزادی اور حقوق دلوائے گی۔ اسکندری نے محبت اور خموشی کے افسوس ناک طریقے سے بھلا دیئے گئے زندگی کے عناصر کو یاد کرنے کی ضرورت پر بات کی ۔ اُنہوں نے کہا’’جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ تشدد اور نفرت سے بھری ہے۔ہم سب خموشی اور محبت کو فراموش کرچکے ہیں۔ میں اپنی فلم کے توسط سے محبت کی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہوں اور خواتین کے حقوق اور آزادی کو دکھانا چاہتی ہوں۔‘‘

ہدایت کارہ نے کہا کہ کہانی کا تعلق بھارت سے بھی ہے، کیونکہ بھارت میں بھی بیوہ ہندو خواتین مشکل طرز زندگی اختیار کرنے کو مجبور ہیں۔ میں بھارت میں فلم کا ورلڈ پریمیئر دیکھ بہت خوش ہوں۔بھارت اور ایران کی طرز زندگی اور ثقافت میں بڑی مماثلت ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ یہاں کے لوگ فلم کو پسند کریں گے۔ اُنہوں نے یاد کیا کہ آئی ایف ایف آئی میں اسکریننگ کے دوران اُنہوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ خاص طور سے خواتین بہت جذباتی ہوجاتی ہیں۔

فلم کے عنوان کے مطلب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اِسکندری نے کہا ؛’’ایرانی ثقافت میں سورج کو مرد کی شکل میں اور چاند کو خاتون کی شکل میں دِکھایا گیا ہے، جو بالترتیب روشنی اور تاریکی کی نمائندگی کرتے ہیں۔چونکہ فلم ایک مرد کے مقابلے ایک خاتون کی زندگی میں تاریکی دِکھاتی ہے، چنانچہ یہ عنوان رکھا گیا۔

آئی ایف ایف آئی کے نمائندوں کی ستائش کرتے ہوئے اِسکندری نے کہا کہ ایران کے لوگ ہندوستانی سنیما کو بہت پسند کرتے ہیں۔’’زیادہ تر لوگوں نے فلم شعلے دیکھی ہے اور انہیں امیتابھ بچن پسند ہیں۔ فلموں کے حوالے سے ایک عظیم شخصیت ستیہ جیت رے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ میرے لیے ہمیشہ ایک رول ماڈل رہے ہیں اور میں اُن کے کاموں سے تحریک حاصل کرتی ہوں۔‘‘

 ایران کے خوراسان میں پیدا ہوئی ستارہ اِسکندری ایک ممتاز اداکارہ ہے، جنہیں تھیٹر، ٹی وی اور فلم میں اُن کے کام کےلئے نہ صرف اعزاز سے نوازا گیا ہے، بلکہ اِس کے لئے اُن کی بڑی ستائش بھی ہوتی رہی ہے۔ایرانی تھیٹر میں بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنا، خاص طور سے ڈے ٹروپ میں علی رفیع کے ساتھ اِسکندری اسٹیج اور ٹی وی ڈرامہ ڈائریکٹر کے طورپر بھی سرگرم ہیں۔ دی سن آف دیٹ مون اُن کی پہلی فیچر فلم ہے۔