طلعت محمود:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا چراغ جس نے بالی ووڈ کو روشن کیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-02-2021
طلعت محمود
طلعت محمود

 

 

 یوم پیدائش(24 فروری) پر خاص پیشکش 

۔ جو ابر یہاں سے اٹھے گا، وہ سارے جہاں پر برسے گا  

۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترانہ کے یہ بول طلعت عزیز کی زندگی کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

 

انیس امروہوی / نئی دہلی

 طلعت عزیز ۔ بالی ووڈ میں آواز کے جادوگر ۔ایک ایسی آواز جس کو بھلا پانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔جس کی آواز میں آٹھ سو سے زیادہ گیت آج بھی لوگوں کے کانوں میں رس گھول رہے ہیں ۔بالی ووڈ میں ایک طویل عرصے تک حکومت کرنے والے اس گلو کار کا تعلق مسلمانوں کےاس تعلیمی ادارے سے تھا جسے دنیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ تعلیمی ادارہ جس نےنہ صرف اعلی تعلیم بلکہ مختلف شعبہ حیات میں ایسی ستاروں کی تخلیق کی ہے جو دنیا بھر میں ملک و قوم کا نام روشن کررہے ہیں۔

طلعت محمودبچپن سے ہی موسیقی کی طرف اُن کا رُجحان صاف نظر آرہا تھا۔ جبکہ ان کے والد منظور محمود اپنے بیٹے کو گلوکار بنتے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ طلعت محمود میوزک کا سامان بیچنے والی دکانوں اور آل انڈیا ریڈیو کے ریکارڈنگ اسٹوڈیو کے چکر کاٹتے رہتے تھے۔ کندل لعل سہگل کی آواز اور ریگل سٹی کی طوائفوں کی آوازوں کے بیچ پھنسے ہوئے طلعت محمود نے بالآخر لکھنؤ میں میوزک کے سب سے اہم ادارے مورسی کالج آف میوزک میں داخلہ لے لیا۔ وہ 24/فروری 1924ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ایچ۔ ایم۔ وی۔ کی ایک ٹیم لکھنؤ کے سفر پر تھی اور اُسی دوران اُس کی نظر میں طلعت محمود کسی طرح آگئے۔ اس کے بعد ان کا لکھنؤ سے باہر کا سفر شروع ہو گیا۔

ایچ۔ ایم۔ وی۔ کی ٹیم انہیں کلکتہ لے گئی۔ وہاں سبل داس گپتا کا ایک نغمہ ”سب دن ایک سمان نہیں“ طلعت محمود کی آواز میں ریکارڈ کرایا گیا۔ یہ ان کی پہلی ریکارڈنگ تھی۔ وہاں طلعت محمود نے نیو تھیئٹر سے بھی وابستگی اختیار کی اور فلم ”سمیتی“ میں انہیں ایک چھوٹا سا کردار بھی ملا۔ اس وقت طلعت محمود کی عمر صرف20/برس تھی اور تبھی ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور کلکتہ میں ہی ان کے سب سے پیارے اور آدرش سنگر کے۔ ایل۔ سہگل سے طلعت محمود کی ملاقات ہو گئی۔ سبل داس گپتا کے بڑے بھائی کمل داس گپتا کو طلعت محمود کی آواز بہت پیاری لگی۔ کمل داس گپتا نے طلعت محمود کی آواز میں اپنا گیت ”تصویر تری دل میرا بہلا نہ سکے گی“ ریکارڈ کروایا۔ یہ گیت فیاض ہاشمی کے زور قلم کا نتیجہ تھا اور اسی نغمے کی ریکارڈنگ کے ساتھ طلعت محمود کا نصیب کھل گیا۔

راتوں رات اس ایک گیت نے طلعت محمود کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1960 کی دہائی کے آخری برسوں میں ان کے اس ریکارڈ کی ایک لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ اس کے بعد طلعت محمود نے بہت سے گیت ریکارڈ کرائے۔ بیشتر بنگلہ زبان کے گیت تھے اور ان گیتوں کو انہوں نے تپن کمار کے نام سے ریکارڈ کروایا۔ اس وقت بنگلہ گیتوں میں طلعت محمود کے مقابلے میں ہیمنت کمار، جگموہن اور جوتیکا رائے بھی موجود تھے۔

اس کے بعد ہندی فلموں میں کیریئر بنانے کی نیت سے طلعت محمود کلکتہ سے ممبئی آگئے۔ ان کی آواز کے جادو سے مسحور ہوکر موسیقار انل بسواس نے ان کو گیت گانے کے لیے موقع دینے کا فیصلہ کیا اور 1951میں فلم ”آرزو“ میں طلعت محمود کی آواز استعمال کی گئی۔ فلم ”آرزو“ میں پردے پر دلیپ کمار نے طلعت کی آواز میں ریکارڈ کیا ہوا گیت ”اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل“ گایا اور اس گیت سے بھی طلعت محمود کو بڑی شہرت حاصل ہوگئی۔

فلم ”آرزو“ میں انل بسواس اور دلیپ کمار کا جو ساتھ طلعت محمود کو حاصل ہوا، وہ برسوں تک جاری رہا۔ اس کے فوراً بعد تمام بڑے میوزک ڈائریکٹروں، جیسے کہ نوشاد، سجاد حسین، شنکر جئے کشن، ایس۔ ڈی۔ برمن، خیام اور سلیل چودھری کے ساتھ انہوں نے گانا شروع کر دیا۔ طلعت محمود کی آواز میں ایک فطری لرزش تھی جوکہ اس وقت افسانوی حیثیت اختیار کر جانے والے ہیرو دلیپ کمار کی آواز کے لیے بہت موزوں تھی۔ لہٰذا وہ دن بھی آیا جب طلعت محمود کی آواز کو دلیپ کمار کی آواز کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ دلیپ کمار نے ایک موقع پر بڑی فراخ دلی سے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ طلعت محمود کی آواز کے سہارے سے ہی ”شہنشاہِ المیہ“ بن سکے تھے۔

طلعت محمود نے ”فٹ پاتھ“ اور ”بابل“ میں دلیپ کمار کو اپنی آواز دی۔ یوں تو انہوں نے دیوآنند اور راج کپور کے لیے بھی گیت گائے مگر دلیپ کمار کی فلموں میں ان کے گیت زیادہ مقبول ہوئے۔ اگرچہ طلعت محمود کو محمد رفیع، مناڈے، مکیش اور پھر کچھ آگے چل کر کشور کمار جیسے گلوکاروں سے سخت مقابلے کا سامنا تھا، لیکن طلعت محمود اپنی جگہ برقرار رہے اور 40کی دہائی سے ۰۶/کی دہائی تک ان کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا اور ہندی فلموں کا یہی دور سنہرا دَور بھی کہلاتا ہے۔ طلعت محمود کو دوسرے گلوکاروں پر ان کے تلفظ اور لہجے کی وجہ سے بھی خاصی سبقت حاصل تھی۔ طلعت محمود کے سدابہار گیتوں میں ”شام غم کی قسم…… پھر وہی شام وہی غم وہی تنہائی ہے…… اے مرے دل کہیں اور چل…… جلتے ہیں جس کے لیے تیری آنکھوں کے دیے…… اتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا کہ میں اک بادل آوارہ…… جائیں تو جائیں کہاں“ اور ”تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی“ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی سننے والے کے دامنِ دل کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔

طلعت محمود نے روشن، مدن موہن اور او۔پی۔ نیر کے لیے کچھ بہترین قسم کے نغمات کو اپنی آواز سے لازوال بنایا ہے۔ طلعت محمود صرف ایک بات پر مصر رہتے تھے، وہ یہ کہ ان کو جو گیت بھی گانے کو دیا جائے وہ عمدہ شاعری کا نمونہ ہو۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوا کہ کوئی نغمہ انہیں پسند نہیں آیا تو انہوں نے اُس گیت کو گانے سے اِنکار کر دیا، مگر سمجھوتہ نہیں کیا۔

aaa

طلعت محمود اکثر کہا کرتے تھے…… ”میرا خاندان روشن خیال لوگوں کا خاندان ہے اور اچھی شاعری کی پرکھ اور پہچان مجھ میں اتنی ہے کہ میں تک بندی کو اپنی آواز نہیں دے سکتا۔“ طلعت محمود نے کچھ فلموں میں گلوکار کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کی ہے۔ انہوں نے ”لاوارث، دل ناداں، ڈاک بابو، ایک گاؤں کی کہانی، مالک“ اور ”سونے کی چڑیا“ میں وہ نوتن کے ہیرو تھے اور زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔

نجی زندگی میں طلعت محمود ایک نہایت شریف انسان تھے۔ دلیپ کمار کے لفظوں میں طلعت محمود ایک عمدہ گلوکار ہی نہ تھے بلکہ شریف، مہذب اور شائستہ انسان تھے۔ ”طلعت محمود ”ادب اور آداب“ کے لکھنوی کلچر کی جیتی جاگتی تصویر تھے اور وہ کم گو بھی تھے۔ گلوکاری کے آخری برسوں میں انہوں نے بہت تیزی سے بدلتے ہوئے موسیقی کے منظرنامے سے اپنی ناخوشی اور بددلی کا اظہار کیا تھا اور موسیقی کے نام پر بے ہنگم شور کا یہ نتیجہ تھا کہ انہوں نے اسٹوڈیو جانا اور نغمہ ریکارڈ کرانا بند کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب موسیقی میں اتنا شور ہونے لگا ہے کہ وہ ان کی خیالوں میں ڈوبی ہوئی آواز سے مطابقت نہیں کر پاتی۔

موسیقی کی دنیا میں ان کی گراں قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوء طلعت محمود کو پدم بھوشن کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ اگرچہ طلعت محمود کے بیٹے خالد نے اپنے باپ کی اہلیت ورثے میں پائی ہے اور ان کی آواز طلعت کی آواز سے بہت قریب بھی ہے، مگر یہ سچ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ طلعت محمود کی آواز کی نقل نہیں کی جا سکتی۔ وہ اپنی مثالی اور انفرادی آوز کے ساتھ موسیقی کے دیوانوں کی یادوں میں بسے رہیں گے۔ کوئی بھی شخص یہ تصور کیسے کر سکتا ہے کہ طلعت محمود کے علاوہ کوئی اور یہ نغمہ گا رہا ہے…… مری یاد میں تم نہ آنسو بہانا نہ دل کو جلانا………… مجھے بھول جانا ……مگر یہ ممکن نہیں ہے۔ کم از کم جب تک یہ دُنیا قائم رہے گی،

یہ ممکن نہیں کہ طلعت محمود کو بھلا دیا جائے۔ ہندوستانی فلمی موسیقی کی تاریخ میں 9/مئی 1998ء کا دن یقینی طور پر ”یوم سیاہ“ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گاکیونکہ اس دن سنہری آواز کے مالک، مغنی اور گلوکار شہنشاہ غزل طلعت محمود اپنے شیدائیوں کو چھوڑکر اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ طلعت محمود کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی لندن، ویسٹ انڈیز، ہالینڈ، لاگوس اور امریکہ سے ان کے شیدائیوں کے فون پر فون آنے لگے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ فلم انڈسٹری میں ان کے بہت کم شیدائیوں نے ان کی طرف دھیان دیا۔ بہت کم فلمی لوگ اس مقبول گلوکار کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پہنچے۔ طلعت محمود نے ہندی فلموں کے رومان پسند عہد کے گیتوں کو اپنی آواز سے لازوال بنا دیا تھا۔