آواز دی وائس، ممبئی
متنازع بیانات دینے کے حوالے سے شہرت رکھنی والی اداکارہ کنگنا رناوت نے کرناٹک میں تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کا حق مانگنے والی طالبات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’آزاد رہنا سیکھیں اور خود کو پنجرے میں بند نہ رکھیں۔‘
اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں اداکارہ کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کو جرأت دکھانی ہے تو افغانستان میں برقع نہ پہن کر دکھائیں۔‘
کنگنا رناوت کے بیان پر معروف اداکارہ شبانہ اعظمی نے ردعمل دیتے ہوئے ہندوستان اور افغانستان کا موازنہ کرنے کو غلط قرار دیا ہے۔ کنگنا کی انسٹاگرام پوسٹ شیئر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں غلط ہوں تو درست کریں لیکن افغانستان ایک مذہبی ریاست ہے جب کہ جب میں نے آخر بار چیک کیا اس وقت تک انڈیا سیکولر جمہوری ملک تھا۔‘
خیال رہے گذشتہ برس سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے کنگنا رناوت کا اکاؤنٹ مستقل طور پر نفرت انگیز مواد شیئر کرنے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خاف ورزی پر معطل کردیا تھا۔
واضح رہے کرناٹک کے علاقے مانڈیا میں پی ایس کالج میں زیر تعلیم مسکان خان نامی طالبہ کو ہجوم کے ہراساں کرنے کی ایک ویڈیو چند روز قبل وائرل ہوئی تھی، جس میں تعلیمی ادارے کے باہر موجود ہجوم انہیں دیکھ کر نعرے لگاتا ہے۔ ویڈیو میں واضح ہے کہ ہجوم کی جانب سے روکے جانے اور نعرے لگانے کے بعد مسکان خان جواب میں ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتی ہیں۔
مقامی کالج میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ مسکان خاں نے کہا تھا کہ وہ اسائنمنٹ جمع کرانے کالج پہنچی تھیں، جب بائیک کھڑی کر کے کالج کے اندر جانے لگیں تو وہاں موجود افراد نے ان کا راستہ روکا اور ان پر چیخے چلائے۔
Correct me if Im wrong but Afghanistan is a theocratic state and when I last checked India was a secular democratic republic ?!! pic.twitter.com/0bVUxK9Uq7
— Azmi Shabana (@AzmiShabana) February 11, 2022
مسکان خاں سے پوچھا گیا کہ احتجاج کرنے والے کون تھے؟ تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہجوم میں دس فیصد لوگ ہی کالج کے طالب عالم ہوں گے، باقی سبھی باہر کے افراد تھے جنہیں وہ نہیں جانتیں۔ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے بعد مسلمان طالبات نے جہاں ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے وہیں مقامی سطح پر زعفرانی مفلر پہنے ہجوم کی جانب سے حجاب کی حمایت کرنے والی طالبات کے خلاف متعدد مقامات پر احتجاج کیا گیا ہے۔
دوسری جانب کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک عبوری حکم نامے میں کہا ہے کہ پابندی کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہ آنے تک طلبہ و طالبات کسی بھی قسم کا مذہبی لباس تعلیی اداروں میں پہننے سے گریز کریں۔