پری زاد : سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا فیملی ڈرامہ

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 19-02-2022
پری زاد :  سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا فیملی ڈرامہ
پری زاد : سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا فیملی ڈرامہ

 



 

عبدالمقیت، حیدرآباد

پری زاد...... 'کافی عرصے بعد ایک بہترین ڈرامہ دیکھنے کو ملا ہے۔' یہ جملہ ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی پر چلنے والے ڈرامہ سیریئل 'پری زاد' کے لیے بہت سے ناظرین کی جانب سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈرامہ پری ذاد ہاشم ندیم کے ناول پر مبنی ہے اور اس ڈرامے کا مرکزی کردار، پری زاد اداکار احمد علی اکبر نے نبھایا ہے۔ اس کردار پر مداحوں کی طرف سے ان کو خاصی پذیرائی ملی ہے۔ اس ڈرامے کی کہانی اور کرداروں کے بارے میں بات کریں تو یہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں ہمارے معاشرے کے ان پہلوؤں اور افراد کی ذات کی عکاسی کی گئی ہے، جنھیں ہمارے ارد گرد کے لوگ آسانی سے قبول نہیں کرتے۔

جیسا کہ اس ڈارمے کا مرکزی کردار پری زاد جو احمد علی اکبر نے نبھایا ہے، وہ ایسا بچہ ہے جو پیدا ہوا تو اس کا رنگ سانولا تھا لیکن اس کی ماں اس کا نام پری زاد رکھتی ہے۔ اس کی شخصیت ایسی ہے جو اپنے آپ میں رہنے والا اور شرمیلی طبیعت کا مالک ہے۔

وہ کسی سے نا تو غیر ضروری بات کرتا ہے اور نا ہی زیادہ لوگوں میں گھلتا ملتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب اسے سانولا رنگ ہونے کے وجہ سے ارد گرد کے لوگوں کی طرف سے تلخ باتیں اور رویے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ جس لڑکی کو وہ خاموشی سے پسند کرتا ہے وہ بھی باتوں باتوں میں اسے یہ کہتی اور احساس دلاتی ہے کہ میں کہا اور تم کہاں۔ ہمارا بھی بھلا کوئی جوڑ ہے۔

پری زاد کے کردار کے علاوہ احمد علی اکبر کی اداکاری کی بھی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ جس باریکی، مہارت اور خوبصورتی سے احمد علی اکبر نے اس کردار کو نبھایا ہے، وہ منفرد اور اپنی مثال آپ ہے۔ سانولے رنگ کو معاشرے میں بدصورتی سے جوڑا جاتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں یہ احمد علی اکبر کے لیے ایک الگ تجربہ تھا۔

اسی طرح اگر اس ڈرامے میں صبور علی کے کردار کو دیکھیں تو وہ ایک ایسی لڑکی ہے جو لڑکوں کی طرح رہنا پسند کرتی ہے اور ان کے ساتھ گلی میں کھیلتی اور باقی کام کرتی ہے۔ جبکہ اس کے ماں باپ کا یہ خیال ہے کہ ہماری بیٹی میں لڑکیوں والی نزاکت نہیں ہے اور یہ لڑکوں کی طرح ہے، اس لیے ہمیں اسے کسی ماہر نفسیات کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ وہی پہلو اور مسائل ہیں جو عموماً ہمارے ارد گرد نظر آتے ہیں۔ کسی بھی لڑکی کو لڑکوں کی طرح رہنے کا اختیار نہیں ہے اور اگر کوئی اس طرح کا رویہ رکھتی ہے تو لوگوں کا خیال یہی ہوتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔

یہ ڈرامہ اس لئے بھی موضوع بحث ہے کیونکہ اس میں عام ڈراموں کی طرح گھریلو، خاندانی و خواتین کے مسائل کو نہیں بلکہ ایک منفرد پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ ڈرامہ کی پروڈیوسر مومنہ خاتون کے لئے یہ ڈرامہ ایک چیلنج تھا کہ کیا لوگ اسے پسند کریں گے یا نہیں؟

پری زاد ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں کم و بیش ہر دو تین پارٹ کے بعد ایک نئے کردار کو متعارف کرایا گیا، جو عموماً مزید ڈراموں میں نہیں ہوتا ہے، کہیں نا کہیں اس وجہ سے بھی یہ ڈرامہ چیلنجنگ تھا جس کو ڈرامے کے ڈائریکٹر شہزاد کشمیری نے بخوبی انجام دیا، ڈرامہ لکھنے والے ہاشم ندیم کے کیا ہی کہنے، ہر ایک لائن میں جو جادو پیرویا ہے اس سے ڈرامے کو چار چاند لگ گئے ہیں، ڈرامے کے کچھ سطور جو مجھے بہت پسند آئے....

کاش انسان کو ظرف بھی اس کے حسن کے برابر عطاء کیا جاتا...!

میں جانتا ہوں آپ ماں اور بیوی کے دو چکی کے پاٹوں کے بیچ پسنے والے اور بہت سے مردوں میں سے ایک ہیں، لیکن ماں کا حکم عزت و احترام قائم رکھتے ہوئے اگر بیٹا اپنی مجبور بیوی کے لئے دو لفظ بھی بول دے تو عورت جی اٹھتی ہے، زندگی زندہ لگنے لگتی ہے اس کو..!

لفظ، احساسات، جزبات، سوچ یہ خوبصورت مگر کتابی باتیں ہیں، باہر کی دنیا انسان کو اس کی ظاہری شخصیت سے ناپتی ہے۔

محبت کے بنا جیا جا سکتا ہے لیکن مقصد کے بغیر نہیں، میں نے ان بے یارومددگار بچوں کی تعلیم میں اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے، جیسے میری الجھنوں کے گچھے سے ایک ڈور آزاد ہوگئی ہے۔

اعتماد کے سہارے بڑے لمبے اور طویل راستے کاٹے جاسکتے ہیں۔

کبھی کبھی خوش فہمی کو بھی دل میں جگہ دینی چاہئے اس سے دل راضی رہتا ہے۔

ہم انسان اپنے ماتھے پر بہت سی ان دیکھی مہر لگائے پھرتے ہیں بس دیکھنے والی نگاہ چاہیے۔

رشتے ترازو میں نہیں تولے جاتے، تولنے بیٹھو گے تو تمہارا ترازو ہمیشہ تمہیں ہی بھاری ثابت کرے گا۔

کئی مرتبہ ہمارے اپنے ہم سے بہت ساری امیدیں لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی امیدوں پر پورا اتریں، جیسے ان کا حق ہو۔

عاشق اور رقیب کے لئے اتنا اعلیٰ ظرف نہیں ہونا چاہیے یہ عشق کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔

وقت سارے گھاؤ بھر سکتا ہے پری زاد، بس جو کھرونچے زندگی کے بدن پر وقت نے خود ہی ماری ہو ان کا بھر پانا مشکل ہے۔

میں یوں تو بیفکری کی باتیں کرتا، اس ظالم دنیا کو اپنے تلوے کے نیچے خاک کی بابت مسل کر رکھ دینے کی قوت رکھتا، مگر پیارے! یہ وہی دنیا ہے جو مجھے کچل کر خاک میں ملانے کی سکت رکھتی ہے_ امید کیوں کرتے ہو؟

کرنے کو کچھ نہیں تو شاعری کرو.... لوگوں کا سینا چاک کر دو دوست!

لفظوں کے مارے سننے والوں کی رنگوں میں تھکے بنے خون کا بلبلا اٹھنا چاہیئے۔

لوگ بہرے ہیں پری زاد، یہ دنیا ہی بہری ہے..!

اور آخیر میں منیر نیازی صاحب کے ترز پر کہی گئی ایک خوبصورت نظم.....

وہ سچ ہی تو کہتا تھا کہ ہمیشہ دیر کی میں نے

ضروری بات کہنے میں کوئی وعدہ نبھانے میں

تمہیں آواز دینے میں تمہیں واپس بلانے میں

ہمیشہ دیر کی میں نے ہاں!

میں جانتا ہوں وہ سچ کہہ گیا تھا

تمہیں ملنے سے پہلے اور تمہیں پالینے تک آخر کیوں؟

اتنی دیر کی میں نے؟

 گفتگو جو ہو سکتی تھی۔