نو ادر لینڈ:فلسطینی اور اسرائیلی فلم ساز کی مشترکہ فلم کے لیے آسکر ایوارڈ

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-03-2025
نو ادر لینڈ:فلسطینی اور اسرائیلی فلم ساز کی مشترکہ فلم کے لیے آسکر ایوارڈ
نو ادر لینڈ:فلسطینی اور اسرائیلی فلم ساز کی مشترکہ فلم کے لیے آسکر ایوارڈ

 



نئی دہلی : فلسطین میں جاری تباہی اور مکینوں کی مشکلات کی عکاسی کرتی ڈاکیومینٹری "نو ادر لینڈ" نے 97ویں اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین ڈاکیومینٹری کا ایوارڈ جیت لیا۔اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں ایک یادگار لمحہ رقم ہوا جب فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے موضوع پر مبنی دستاویزی فلم 'نو ادر لینڈ' نے بہترین ڈاکیومنٹری کا آسکر حاصل کر کے تاریخ رقم کی۔اتوار کی شب ڈولبی تھیٹر میں منعقد ہونے والی آسکر تقریب کے دوران، جب اس فلم کے لیے ایوارڈ کا اعلان کیا گیا، تو ہالی وڈ کے معروف ستاروں نے اپنی باہمت تالیوں سے اس کامیابی کا خیرمقدم کیا۔
فلم کی جیت پر فلسطینی شریک ہدایت کار باسل عدرا اور ان کے ساتھی یووال ابراہام نے عالمی برادری کو اپیل کی کہ فلسطین میں جاری انسانی بحران اور مظالم پر فوری توجہ دی جائے۔یہ دستاویزی فلم، جو فلسطین اور اسرائیل کی مشترکہ پروڈکشن ہے، مغربی کنارے کے مسافر یطا کے علاقے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے گھروں کی مسماری اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے مناظر کو بے نقاب کرتی ہے، جس سے ایک گہرے سیاسی اور انسانی المیے کی عکاسی ہوتی ہے۔
یہ فلم فلسطینی اور اسرائیلی فلم سازوں کی مشترکہ پروڈکشن ہے، جو ان کارکنوں کی جدوجہد کو نمایاں کرتی ہے جو لوگوں کو جبری بے دخلی اور گھروں کی مسماری کے دوران بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلم میں مغربی کنارے کے ایک ایسے علاقے کو دکھایا گیا ہے جہاں اسرائیلی فوج مکانات گرا کر اسے فوجی تربیتی زون میں تبدیل کر رہی ہے۔
فلم کی کہانی ایک فلسطینی انسانی حقوق کے کارکن کے گرد گھومتی ہے جو ان مظالم کا دستاویزی ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے۔ تاہم، اس کی کوششیں تب تک بے اثر رہتی ہیں جب تک کہ وہ ایک اسرائیلی صحافی سے دوستی نہیں کر لیتا، جو اس کی کہانی دنیا کے سامنے لانے میں مدد کرتا ہے۔

⚡️🇵🇸BREAKING: ‘No other land’ wins best documentary at the #Oscars

ایوارڈ جیتنے کے بعد فلسطینی شریک ہدایت کار باسل عدرا اور ان کے ساتھی یووال ابراہام نے عالمی برادری سے فلسطین میں جاری بحران پر توجہ دینے کی اپیل کی۔ ایوارڈ کی تقریب کے دوران، فلسطینی ہدایت کار باسل عدرا نے اپنی تقریر میں کہا کہ "یہ فلم ہماری اُس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جس کا ہم کئی دہائیوں سے سامنا کر رہے ہیں۔باسل عدرا نے کہا کہ تقریباً دو ماہ قبل، میں باپ بنا۔ میری امید ہے کہ میری بیٹی کو وہ زندگی نہ جینی پڑے جو میں گزار رہا ہوں، جہاں ہمیشہ آبادکاروں کا خوف، تشدد، گھروں کی مسماری اور جبری بے دخلی کا سامنا ہو۔ ہم دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ناانصافی کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔" اسرائیلی  فلم ساز یووال ابراہم نے کہا کہ جب میں باسل کو دیکھتا ہوں، تو میں اپنے بھائی کو دیکھتا ہوں، لیکن ہم برابر نہیں ہیں۔ ہم ایک ایسے نظام میں رہتے ہیں جہاں میں شہری قوانین کے تحت آزاد ہوں اور باسل فوجی قوانین کے تحت ہے جو اس کی زندگی کو تباہ کر رہے ہیں۔ ایک مختلف راستہ موجود ہے، ایک سیاسی حل بغیر نسلی برتری کے، جہاں دونوں قوموں کے قومی حقوق تسلیم کیے جائیں۔

فلم کا ایک منظر 
باسل عدرا نے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا، "یہ فلم ان مشکلات کی عکاسی کرتی ہے جن کا سامنا ہم دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ دو ماہ قبل میں والد بنا، اور میری خواہش ہے کہ میری بیٹی کو وہ زندگی نہ جینی پڑے جس کا سامنا میں کر رہا ہوں، جہاں ہر لمحہ تشدد، حملوں اور جبری بے دخلی کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلسطین میں جاری نسل کشی کو روکا جائے۔
یووال ابراہام نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "میرے اسرائیلی عوام صرف اسی صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں جب فلسطینی عوام بھی محفوظ اور آزاد ہوں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ایسا حل تلاش کریں جو ہر قسم کے امتیاز سے پاک ہو۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے "نو ادر لینڈ" کی جیت کو ایک اہم کامیابی قرار دیا ہے اور ان لوگوں پر تنقید کی جو فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند نہیں کرتے۔اگرچہ فلم کو مختلف فلمی میلوں میں خوب پذیرائی ملی، لیکن حیران کن طور پر اب تک کسی بھی امریکی فلم ڈسٹری بیوٹر نے اسے ریلیز کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
 
انڈیپینٹینٹ اسپرٹ ایوارڈ بھی ملا تھا 
   یاد رہے کہ  پچھلے ہفتے ہی  فلسطینی علاقے مغربی کنارے کے ایک گاؤں کی تباہی کے بارے میں بننے والی فلسطینی-اسرائیلی ڈائریکٹرز کے اشتراک سے بننے والی فلم ’نو ادر لینڈ ‘ نے کیلیفورنیا میں منعقد ہونے والے انڈیپینڈنٹ سپرٹ ایوارڈز میں بہترین دستاویز فلم کا اعزاز جیتا تھا۔ انڈیپینڈنٹ سپرٹ فلم ایوارڈز کی تقریب کیلیفورنیا کے ساحلی شہر سینٹا مونیکا میں منعقد ہوئی تھی  جو آزاد فلموں اور ٹیلی ویژن کے بہترین کاموں کو سراہنے کے لیے معروف مقام ہے۔ایوارڈ یافتہ فلم چار فلسطینی و اسرائیلی فلم ڈائریکٹرز باسل عدرا، حمدان بلال، یووال ابراہم اور راحیل شور کی مشترکہ ہدایت کاری میں بنی ان کی پہلی فلم ہے۔فلسطینی ہدایت کار باسل عدرا کی جدوجہد کو بیان کرتی یہ فلم مغربی کنارے کے جنوی علاقے ’مسافر یطا‘ میں مقیم ایک نوجوان کارکن کی روداد بیان کرتی ہے۔باسل عدرا اپنے بچپن سے ہی اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں گھروں کی تباہی اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو دستاویزی شکل میں محفوظ کر رہا ہے۔
 اہم ایوارڈز کی تقریب میں نمایاں لمحات مناتے ہوئے مختلف زمروں میں شاندار مقابلہ دیکھنے میں آیا:
بہترین فلم
اس سال بہترین فلم کے زمرے میں نامزد دس فلموں میں 'انورا'، 'دی بروٹلسٹ'، 'آ کمپلیٹ ان نون'، 'کونکلیو'، 'ڈیون: پارٹ ٹو'، 'امیلیا پیرز'، 'آئی ایم اسٹل ہیئر'، 'نکل بوائز'، 'دی سبسٹینس' اور 'وکڈ' شامل تھیں۔ تاہم، سب سے اعلیٰ اعزاز 'انورا' کو دیا گیا۔ اس فلم نے نہ صرف پروڈیوسرز گلڈ، ڈائریکٹرز گلڈ اور انڈیپینڈنٹ سپرٹ ایوارڈز جیت کر اپنے داؤ کو مضبوط کیا بلکہ ہدایت کار شون بیکر کو بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ بھی نصیب ہوا، جس سے مجموعی طور پر 'انورا' نے پانچ ایوارڈز حاصل کیے۔
بہترین اداکارہ
'انورا' کی مائیکی میڈیسن کو بہترین اداکارہ کا آسکر دیا گیا۔ اگرچہ 'دی سبسٹینس' کی ڈیمی مور کو اس زمرے میں نمایاں امیدوار سمجھا جا رہا تھا، مگر مائیکی میڈیسن کی انڈیپینڈنٹ سپرٹ ایوارڈز میں شاندار کامیابی نے انہیں بالآخر فاتح قرار دیا۔
بہترین اداکار
بہترین اداکار کے ایوارڈ میں 'دی بروٹلسٹ' کے ایڈریئن بروڈی کو منتخب کیا گیا، جنہیں اس مقابلے کا مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔ اس دوڑ میں ٹمیتھی شیلیمے، جو سکرین ایکٹرز گلڈ ایوارڈ کے فاتح تھے، بھی نمایاں رہے۔