کین : پہلی پاکستانی فلم ’جوائے لینڈ‘ کی دھوم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-05-2022
کین : پہلی پاکستانی فلم ’جوائے لینڈ‘ کی دھوم
کین : پہلی پاکستانی فلم ’جوائے لینڈ‘ کی دھوم

 

 

کین:فرانس میں جاری کین فلم فیسٹیول میں پاکستانی کی پہلی فلم ’جوائے لینڈ‘ نے ناظرین کا دل جیت لیا، جس پر فلم کے ہدایت کار اور اداکاروں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ امید بھ ظاہر کی پاکستانی ناظرین بھی اسے دیکھا پسند کریں گے۔ رواں ہفتے جب ایک مسلمان ملک میں خواجہ سرا رقاص کے دلیرانہ موضوع پر بنائی گئی فلم کی کین میں نمائش ہوئی، تو ہال میں موجود ناظرین نے اس کے لیے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔

فرانس میں جاری کین فلم فیسٹیول میں پاکستانی کی پہلی فلم ’جوائے لینڈ‘ نے ناظرین کا دل جیت لیا، جس پر فلم کے ہدایت کار اور اداکاروں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ امید بھ ظاہر کی پاکستانی ناظرین بھی اسے دیکھا پسند کریں گے۔

رواں ہفتے جب ایک مسلمان ملک میں خواجہ سرا رقاص کے دلیرانہ موضوع پر بنائی گئی فلم کی کین میں نمائش ہوئی، تو ہال میں موجود ناظرین نے اس کے لیے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔

یہ فلم ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے پدرشاہی خاندان کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اور اس کے والد کی توقع ہے کہ اس کی بیوی تین بیٹیوں کے بعد ایک بیٹے کو جنم دے گی۔ مگر وہ اس کی بجائے ایک تھیٹر ٹروپ کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کی ڈائریکٹر خواجہ سرا خاتون کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ورائٹی میگزین نے فلم کی تعریف میں لکھا: ’بہت تازہ، ہم مسلسل حیران ہیں‘، جبکہ فلمز پر تبصرہ کرنے والی ویب سائٹ ’ڈیڈ لائن‘ نے فلم کو ’فکر انگیز، اچھے انداز میں بنائی گئی اور متوجہ کر لینے والی‘ قرار دیا۔

 فلمی میلے میں موجود بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستان خواجہ سراؤں کو امتیازی سلوک کے خلاف قانونی تحفظ فراہم کرنے والے اولین ملکوں میں شامل ہے۔ پاکستان نے 2009 میں خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے طور تسلیم کر لیا تھا اور 2018 میں پہلا پاسپورٹ جاری کیا گیا جس میں جنس کے خانے میں خواجہ سرا درج تھا۔

Awaz

پاکستانی اداکارہ علینہ خان


 

ہدایت کار صائم صادق نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’پاکستان بہت ہیجانی اور دو انتہاؤں والا ملک ہے۔ بلاشبہ آپ کو ایک جانب کسی مخصوص برداری کے خلاف تعصب ملے گا لیکن آپ کو یہ ترقی پسند قانون بھی ملتا ہے جس کے تحت بنیادی طور پر ہر کسی کو آزادی ہے کہ وہ اپنی جنس کی شناخت کروائے اور وہ تیسرے جنس کے طور پر بھی اپنی شناخت کروا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’اس قانون پر مکمل عملدرآمد کیا جا رہا ہے؟ بلاشبہ نہیں۔ لیکن قانون سازی میں تبدیلی شروع ہوئے صرف چار سال ہوئے ہیں۔‘ صائم صادق کہتے ہیں کہ ہندوستان میں 19 ویں صدی میں برطانوی راج کے قیام سے پہلے خواجہ سرا محرومیوں کا شکار نہیں تھے۔ صادق کے مطابق: ’وہ فن اور شاعری کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ وہ ایسے لوگ تھے جنہیں شاہی خاندان کے لوگوں کو آداب سکھانے اور شہزادے شہزادیوں کو تعلیم دینے کے لیے کہا جاتا تھا۔ یہ ان کے لیے معاشرے میں جگہ تھی۔‘

صادق کا مزید کہنا تھا کہ آج پاکستان میں خواجہ سرا اتنی آزادی کے ساتھ زندگی نہیں گزارتے جتنی فرانس میں گزارتے ہیں۔ ’لیکن صورت حال ایسی بھی نہیں کہ جیسی کوئی مسلمان دنیا کے بارے میں سوچتا ہے۔ بعض سطح پر خواجہ سرا اس سے زیادہ آزاد ہیں جتنی آپ توقع کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’جوائے لینڈ‘ یہ واضح کرتی ہے کہ خواجہ سراؤں کو زیادہ تر انہی مسائل کا سامنا ہے جو پاکستان میں ان خواتین کو ہے جن کی جنس کا تعین پیدائش کے وقت ہو جاتا ہے جہاں دوسرے تمام لوگوں کے برعکس معمول کے جنسی رجحان کے مالک مرد حضرات کو اپنی خواہشات کو جانچنے کی زیادہ آزادی ہوتی ہے۔