ڈائیلاگ جو زندگی کا حصہ بن گئے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
فلم مغل اعظم کا ایک منظر
فلم مغل اعظم کا ایک منظر

 

ڈائیلاگ کہیں یا مکالمے۔۔۔کسی بھی فلم کو ”زندہ جاوید“بنانے میں سب سے کردار ادا کرتے ہیں۔ہم فلم ایک بار دیکھتے ہیں لیکن اس کے ڈائیلاگ زندگی بھرہماری زبان پر ’براجمان‘ ہوجاتے ہیں۔زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ایسے ڈائیلاگ کہیں ہماری خوشی کو بیان کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں تو کہیں غصہ۔کہیں مذاق کا تو کہیں بے چینی۔یہی وجہ ہے کہ ہندی فلموں میں ڈائیلاگ کا کردار کسی مرکزی کردار سے کم نہیں رہا ہے۔

کچھ ڈائیلاگ تو ایسے تھے جنہوں نے فلموں کے ریلیز ہونے کے دو یا تین دہائیوں کے بعد بھی کچھ کرداروں کا نہ صرف ذہینوں میں بلکہ دلوں میں زندہ رکھا ہے۔مغل اعظم کی بات کریں یا پھر شعلے کی۔مقدر کا سکندر کی بات کریں یا پھر ڈان کی۔ دیوار کو یاد کریں یا پھرشہنشاہ کو۔دل والے دلہنیا لے جائیں گے کے ساتھ ’دامنی‘ اور ’وانٹیڈ‘تک نظر دوڑائیں تو ایسے ڈائیلاگ کی ایک طویل فہرست تیار ہوجائے گی۔ہر دور میں ایسے ڈائیلاگ کی ایک تاریخ رہی ہے جس نے نہ صرف کسی فلم کو بلکہ کرداروں کو بھی ’زندہ جاوید‘ بنا دیا۔

”مغل اعظم“ ہندی فلموں کی تاریخ کوسب سے زیادہ ’مالدار‘ بناتی ہے۔ جس میں مغل خاندان کے محلوں سے میدان جنگ تک محبت کی صداسنائی دی تھی۔اس فلم میں جو کے آصف کا شاہکار تھی،ایک ایک ڈائیلا کسی موتی کی طرح چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔فلم میں اکبر اعظم کے کردار میں پرتھیوی راج چوہان کا ڈائیلاگ اب بھی محفلوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے کہ ”۔سلیم تجھے مرنے نہیں دے گا۔۔اور ہم انارکلی تجھے جینے نہیں دیں گے۔۔“۔اس کے ساتھ شہزادہ سلیم کا کردار نبھانے والے دلیپ کمار کا یہ ڈائیلاگ آج بھی عاشقوں کیلئے کسی خزانہ سے کم نہیں کہ ”۔۔”میرا دل بھی آپ کا کوئی ہندوستان نہیں۔۔۔ جس پر آپ حکومت کرتے۔‘۔۔۔

”شعلے“ایک ایسی فلم میں کون ہیرو تھا کون ویلن اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کیونکہ ”گبرّ“ کے کردار میں امجد خان نے جو دھمال مچایا تھا اس نے ہیرو کے کردار میں امیتابھ بچن اور دھرمیندر کو بہت کچھ سبوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس کا سبب سے بڑا سبب ڈائیلاگ ہی تھے۔ ”تیرا کیا ہوگا کالیہ“ ۔۔ ”کتنے آدمی تھے“۔۔یہ ہاتھ ہمیں دیدے ٹھاکر“۔۔۔ ”جو ڈر گیا سمجھو مرگیا“۔۔۔ یہ شعلے کے ایسے ڈائیلاگ تھے جو ایک ویلن کو ہیرو بنا گئے۔

”ڈان“ امیتابھ بچن کی فلم تھی۔۔۔اس کا ڈائیلاگ ”ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے“۔۔1978 سے ابتک ہر کسی کی زبان پر سوار ہے۔ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ڈائیلاگ اتنا ہی مشہور ہے جتنا اس زمانے میں تھا۔فلم ڈان کا ہی دوسرا حصہ جس میں شاہ رخ نے کام کیا اسی ڈائیلاگ کو دہرایا گیا تھا۔

”دیوار“ شہشاہ امیتابھ بچن کی ایک کامیاب فلم ہیجس میں ایک ڈائیلاگ تھا۔۔ ”۔میرے پاس ماں ہے۔“۔۔ یہ ڈائیلاگ ششی کپور کی زبان سے اس وقت ادا ہوا تھا جب امیتابھ بچن نے اس سے سوال کیا تھا کہ ”آج میرے پاس بنگلہ ہے گاڑی ہے بینک بیلنس ہے تمہارے پاس کیا ہے؟ ”شہنشاہ“۔امیتابھ بچن کا ایک اور شاہکار۔فلم خواہ اتنی کامیاب نہیں ہوئی جتنی کے ڈائیلاگ۔اس فلم کا ڈائیلاگ”رشتے میں تو ہم تمہارے باپ لگتے ہین لیکن نام ہے شہنشاہ“۔1988سے ابتک یہ ڈائیلاگ سب کو اندوز ہونے کا موقع دیتا ہے۔

”میں نے پیار کیا“۔۔اس فلم نے جہاں سلمان خان کے ’پریم‘کو ہوا دی وہیں کچھ ڈائیلاگ فلم بینوں کو تحفے میں دئیے۔اس فلم کا ایک ڈائیلاگ ”دوستی کا ایک اصول ہے میڈم نو سوری نو تھینک یو“بہت ہٹ رہا تھا۔سلو بھائی کا یہ جملہ اس قدر مقبول ہوا کہ آج لوگ اپنے دوستوں کو بھی یہی جملہ ادا کرتے ہیں۔ ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ بات اب شاہ رخ خان کی کر لیں۔ ”بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں“۔اس فلم کا یہ ڈائیلاگ نہ صرف اب تک ا ستعمال جاتا ہے بلکہ یہ ایک ضرب المثل بن چکا ہے۔

”دامنی“ سنی دیول کی ’سپر ہٹ‘ فلم میں ایکشن کے ساتھ ساتھ ڈائیلاگ کا ایسا بگھار تھا کہ آج بھی فلم ذہینوں میں گھر کلے ہوئے ہے۔اس میں سنی دیول کا یہ ڈائیلاگ”جب یہ ڈھائی کلو کا ہاتھ کسی پر پڑ تا ہے نا۔۔۔تو آدمی اٹھ نہیں۔۔ اٹھا جاتا ہے۔۔“۔ ہر کسی کی زبان پر رہتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ایک اور ڈائیلاگ””تاریخ پر تاریخ۔۔تاریخ پر تاریخ۔۔تاریخ پر تاریخ۔تاریخ پر ملتی رہی ہے لیکن انصاف نہیں ملتا۔ملتی ہے تو صرف تاریخ“۔۔ بھی گلیوں سے محفلوں تک گونجتا رہتا ہے۔سنی دیول کا ادا کردہ یہ جملہ اتنا مشہور ہوا کہ لوگ اس کو فلمی جملے کی بجائے کسی عدالتی کارروائی کا حصہ ہی سمجھتے ہیں۔

”دیو داس“ بالی ووڈ کے ’کنگ‘ شاہ رخ خان کی بے پناہ ادا کاری کانمونہ بنی۔اس فلم کے ڈائیلاگ بھی اس کردار کی طرح زندہ ہیں۔شاہ رخ کی زبان سے نکلا یہ ڈائیلاگ”۔۔ کون کمبخت برداشت کرنے کو پیتا ہے۔۔ہم تو پیتے ہیں کہ یہاں پر بیٹھ سکیں۔تمہیں دیکھ سکیں۔۔تمہیں برداشت کرسکیں۔۔“ کسی نشہ سے کم نہیں رہا۔اس کے ساتھ۔۔”بابو جی نے کہا گاؤں چھوڑ دو۔۔سب نے کہا پارو کو چھوڑ دو۔۔پارو نے کہا شراب چھوڑ دو۔۔آج تم نے کہہ دیا حویلی چھوڑ دو۔۔ایک دن آئے گا جب وہ کہیں گے۔۔۔ دنیا ہی چھوڑ دو۔۔“ نے بھی دیو داس کے کروڑوں دیوانہ بنا دئیے تھے۔ ”وانٹیڈ“ میں سلمان خان نے کا یہ ڈائیلاگ ”ایک بار جو میں نے کمٹمنٹ کر لی تو پھر اپنے آپکی بھی نہیں سنتا“۔نے کہرام برپا کردیا تھا۔ ایسے ڈائیلاگ کی ہندی فلموں میں ایک مکمل تاریخ موجود ہے،ہر دور کی فلموں میں ایسے ڈائیلاگ ہر کسی کو یاد دلاتے ہیں کہ اداکاری کے ساتھ ساتھ زبان سے ادا کئے گئے ہر جملے میں ایک وزن ہوتا ہے،ایک طاقت ہوتی ہے اور ایک کشش ہوتی ہے جو کسی ہیرو کے کردار کو نئی طاقت اور قوت دیتاہے۔