شکیل بدایونی کی برسی پر خاص
مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے:
میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں
ہندوستان کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی 3 اگست 1916ء کو محمّد جمیل احمد قادری سوختہ کے گھر جعمرات کو پیدا ہویے تھے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد جمیل احمد قادری ممبئی کی ایک مسجد میں خطیب او ر پیش نماز تھے۔
مشہور شاعر حضرت ضیاء القادری نے ان کا نام شکیل احمد رکھا تھا اور تاریخی نام غفار احمد رکھا تھا۔ شکیل بدایونی کی ابتدائی تعلیم مکتب اور مدرسے بدایوں سے شروع ہوئی، اس کے بعد 1936ء میں ہائی اسکول پاس کیا۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن سے ہی دامن گیر ہو گیا تھا۔ 1935ء میں ایک شاندار آل انڈیا مشاعرہ بدایوں میں منقعد ہوا۔
اس میں شکیل بدایونی نے شرکت کر خوب داد حاصل کی۔ اس دن سے اہل بدایوں ان کی شیری کو پہچاننے لگے۔ 1937ء میں اپنے دوست یوسف حسین قادری کے پاس مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے پہنچ گئے۔ علی گڑھ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ شاعری میں بےپناہ دلچسپی لینے لگے۔
اسی زمانے میں ان کی ملاقات حضرت جگر مراد آبادی سے ہوئی اور اس ملاقات کے بعد ان کی شاعری میں انقلاب آ گیا۔ حضرت جگر نے ہی انہیں فلمی دنیا میں جانے کا مشورہ دیا تھا۔ 1942ء میں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت کرنے لگے۔ شکیل دہلی میں تقریباً 1946ء تک مقیم رہے۔
اس کے بعد ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے جہاں ان کی ملاقات اے آر کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصّہ لیا اور ان کی شہرت پورے ہندوستان میں ہو گئ۔ اے آر کاردار کے اصرار پر شکیل نے مستقل طور پر بمبئی کو ہی اپنی رہائش گاہ بنا لیا اور اپنی ملازمت کو چھوڈ دیا۔ ان کی پہلی فلم "درد" کے نغمات نے شہرت پھیلائ اور دیکھتے دیکھتے وہ سب کے پسندیدہ نغمہ نگار بن گئے۔
شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو ، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے۔ شکیل بدایونی نے نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر دو سو سے زائد نغمے لکھے۔ مدر انڈیا، مغل اعظم، میرے محبوب، بابل جیسی فلموں کے خالق شکیل بدایونی لگاتار 3 سال "فلم فیر ایوارڈ" حاصل کرنے والے واحد شاعر تھے۔
شکیل کو شاعری کے علاوہ بیڈمنٹن کھیلنا بہت پسند تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جب بھی پکنک پر جاتے تو وہ بیڈمنٹن اور پتنگ بازی بھی کرتے تھے۔ نوشاد، محمد رفیع اور کبھی کبھار جانی واکر بھی ان کے ساتھ پتنگ بازی کے مقابلے میں حصہ لیا کرتے تھے۔ فلمی نغموں کے علاوہ ان کی شاعری کے پانچ مجموعے "غم فردوس"، "صنم و حرم"، "رعنائیاں"، "رنگینیاں"، "شبستاں" کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی، تاہم 1969ء میں لکھی گئی آپ بیتی 2014 میں شائع ہوئی تھی۔ شکیل بدایونی کا 20 اپریل 1970ء کو ممبئی میں انتقال ہو گیا تھا۔ ممبئی میں ہی وہ آسودہ خاک ہویے تھے مگر قبرستان کی انتظامیہ نے 2010ء تک ان کی قبر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔
شکیل بدایونی کی چند منتخب غزلیں ملاحظہ ہوں:
دل کے بہلانے کی تدبیر تو ہے
تو نہیں ہے تری تصویر تو ہے
ہم سفر چھوڑ گئے مجھ کو تو کیا
ساتھ میرے مری تقدیر تو ہے
قید سے چھوٹ کے بھی کیا پایا
آج بھی پاؤں میں زنجیر تو ہے
کیا مجال ان کی نہ دیں خط کا جواب
بات کچھ باعث تاخیر تو ہے
پرسش حال کو وہ آ ہی گئے
کچھ بھی ہو عشق میں تاثیر تو ہے
غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ
مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے
٭٭٭
ذوق گناہ و عزم پشیماں لیے ہوئے
کیا کیا ہنر ہیں حضرت انساں لیے ہوئے
کفر و خرد کو راس نہ آئے گی زندگی
جب تک جنوں ہے مشعل انساں لیے ہوئے
ہوں ان کے سامنے مگر ان پر نظر نہیں
سعیٔ طلب ہے عزم گریزاں لیے ہوئے
دل کو سکون پستیٔ ساحل سے کیا
غرض ہر عزم ہے بلندئ طوفاں لیے ہوئے
گلشن کے دل میں آج بھی محفوظ ہیں
وہ پھول مرجھا گئے جو داغ بہاراں لیے ہوئے
آ ہی گئے وہ عرض ندامت کو اے شکیلؔ
لعلیں لبوں پہ خندۂ گریاں لیے ہوئے
*****
سرنگوں کر ہی دیا ذوق جبیں سائی نے
نخوت عشق مٹا دی تری یکتائی نے
ہوش ادراک سے بیگانہ بنا کر اک بار
کوئی کروٹ ہی نہ بدلی تری انگڑائی نے
بن گیا بے خود نظارہ بہ الفاظ دگر
لاج رکھ لی ترے جلووں کی تماشائی نے
مختصر ایک تو ویسے ہی نہ تھی
قید حیات اور میعاد بڑھا دی شب تنہائی نے
قدر ہونے لگی ارباب محبت میں شکیلؔ
مجھ کو انسان بنایا مری رسوائی نے
******
شب کی بہار صبح کی ندرت نہ پوچھئے
کتنا حسیں ہے خواب محبت نہ پوچھئے
پھولوں کی غم رسیدہ مسرت نہ پوچھئے
ظاہر میں خندہ زن ہیں حقیقت نہ پوچھئے
وہ دن گئے کہ تھی مجھے پرسش کی آرزو
محبوب ہو کے اب مری حالت نہ پوچھئے
ہاتھوں سے دل کے چھوٹ گیا دامن امید
کیا مل گیا جواب شکایت نہ پوچھئے
دل کو نہ ہوگی تاب غم بے توجہی
للہ داستان محبت نہ پوچھئے
یوں دیکھتے ہیں جیسے ادھر دیکھتے نہیں
اس لطف بے غرض کی نزاکت نہ پوچھئے
******
شکوۂ اضطراب کون کرے
اپنی دنیا خراب کون کرے
گن تو لیتے ہیں انگلیوں پہ گناہ
رحمتوں کا حساب کون کرے
عشق کی تلخ کامیوں کے نثار
زندگی کامیاب کون کرے
ہم سے مے کش جو توبہ کر بیٹھیں
پھر یہ کار ثواب کون کرے
غرق جام شراب ہو کے شکیلؔ
شغل جام و شراب کون کرے