مسلمان ہونا میرے راستے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا:نصیرالدین شاہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
نصیرالدین شاہ
نصیرالدین شاہ

 

    منجیت ٹھاکر  / نئی دہلی

            ہندوستانی سنیما میں ایسے اداکار بہت کم ہوئے ہیں جن کی ناظرین اور نقاددونوں پر برابر کی پکڑرہی ہے۔”جانے بھی دو یارو“،”کتھا“”منڈی“جیسی متوازی قسم کی فلموں میں نصیر، اداکاری کے اسکول جیسے دکھتے ہیں۔متوازی سنیما کے نصیرنے اپنے مخصوص انداز، سہل اداکاری، مکالمہ ادائیگی اور کردار میں اترجانے کے اپنے مخصوص انداز سے ناقدوں کے دل جیت لئے تو دوسری طرف مہرا، تری دیو اور عشقیہ جیسی بے شمار کاروباری فلمیں ہیں جن کے ذریعے انھیں فلم ناظرین کی تالیاں حاصل ہوئیں۔ کمرشیل فلموں میں بھی نصیر کسی ایک امیج میں نہیں بندھے۔’اے ویڈنیسڈے‘ جیسی فلم میں وہ عام آدمی کو نائک بناتے نظر آتے ہیں تو کبھی ”سرفروش“ کے آتنک وادی گویے کو زندہ کردیتے ہیں اور کبھی ”کرش 2“ کے بلندنظر سائنسداں ولن کے جبروستم کو۔نصیرالدین شاہ کی اداکاری اور ان کی فلموں کے خوب تذکرے ہوئے ہیں لیکن ان کے اندراس کے علاوہ ایک بے چین دانشور بھی ہے جواپنے ملک کو لے کر، اس کی وراثت کو لے کر فکرمند رہتا ہے۔ ہر طرح کی انتہاپسندانہ سوچ کے خلاف ان کا نظریہ ہے جس پر کئی بار شور وغل بھی ہوا مگر نصیر اپنی بات پر قائم ہیں۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ ان کو ہندوستان میں محض مسلمان ہونے کے ناطے راستے میں رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔بہرحال کورونا وبا کے دوران نافذملک گیر لاک ڈاؤن میں شاہ نے خود کو بور نہیں ہونے دیا، کچھ نیا سیکھتے رہے۔ ان سے تفصیلی گفتگو کی منجیت ٹھاکر نے۔ آج پڑھئے اس انٹرویو کی پہلی قسط۔

            سوال: کورونا وبا نے ایک طرح سے دیش ودنیا کو تباہ کردیا۔ لاک ڈاؤن کے وقت کا آپ کاکیا تجربہ رہا؟

            جواب: مجھے زیادہ تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ مجھے گھر پر رہنے کی عادت رہی ہے۔ جب کوئی تھیٹر کا یا لکھنے پڑھنے کا کوئی کام نہ ہوتو میں اکثر مہینوں گھر پر گزار دیتا ہوں۔ میرے لئے تو یہ (لاک ڈاؤن) لمبی چھٹی تھی۔اس دوران جو میرے پڑھنے کی فہرست میں تھا،وہ میں نے پڑھا۔ کچھ لکھنا بھی شروع کیا۔ میں دو،تین ناٹک بھی کرنا چاہتا ہوں۔تو اس کی بھی ہم نے زوم کے ذریعے تیاری شروع کی۔پر اس مہاماری سے اہم سبق ملا کہ آدمی کو اپنے آپ کو بور نہیں ہونے دینا چاہئے۔ جب دنیا معمول کی تھی اور جس دن کوئی کام نہ ہوتو عجیب سی بے چینی ہوتی تھی لیکن ان دنوں (لاک ڈاؤن میں) جب میں صبح کو اٹھتاتھا تو دیکھتا تھا کہ کرنے کے لئے کچھ تو ہے ہی نہیں اور پتہ نہیں کب تک ہوگا نہیں۔ تو سوچا کہ کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو ڈھونڈناہوگا۔ (ہنستے ہوئے)اتفاق سے ایک بندہ بانسری بجاتا ہوا جا رہا تھا اور وہ بانسری بیچ رہا تھا تو میں نے اس سے بانسری خریدلی۔ میرے دوست ہیں رگھو بیر یادو جو بہت بہترین بانسری بجاتے ہیں۔ ان سے میں کچھ سبق لئے اور اس کا ریاض کرتا رہا۔ کم سے کم ایک مہینے ہم نے گھر میں ٹی وی آن بھی نہیں کیا اور کوئی فلم بھی نہیں دیکھی بس گھر کا کام کیا اور ان دنوں رمضان بھی چل رہے تھے اور زندگی میں پہلی مرتبہ (ہنستے ہوئے) پورے کے پورے روزے رکھے۔۔ کہ بھائی کچھ تو ہو۔۔ ٹو لک فارورڈ ٹو ایڈ دی اینڈ آف دی ڈے۔۔ ہماری واقف ہیں بہت ہی عالم پروفیسر عارفہ زہراء جو لاہور میں انگریزی کی پروفیسر ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ بھئی بور ہونا کیا ہوتا ہے۔۔ یہ تو میں جانتی ہی نہیں ہوں۔۔ ان کی اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ میں نے بھی کچھ ویسا ہی کیا۔

      نصیر الدین شاہ نے اداری میں نئے سنگ میل  قائم کئے ہیں            

  سوال:یہ تو وبا کا وقت تھا۔۔کیا اس میں انسانیت کو لے کر خود کو دیکھنے کو لے کر، اپنی خود احتسابی کرنے کو لے کر لوگوں کے نظریے میں فرق آیا ہے کہ بطور ایک انسان ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

            جواب: جب یہ لاک ڈاؤن اناوئنس کیا گیا چار گھنٹے کے اندر جو کہ میرے خیال سے بہت کم عرصہ تھا اور جب یوپی اور بہار سے آئے کام گاروں کو کوئی راستہ نہ ملا تو وہ سب کے سب اپنے اپنے گھر کو پیدل چلنے لگے۔۔ جہاں تک ایکٹروں کا سوال ہے خاص طور پر فلم انڈسٹری میں کہ برزگ ایکٹر ضروری ہیں ہی۔۔ چاہے آپ نوجوانوں کی فلم بنا رہے ہوں پھر بھی اس میں بزرگ تو چاہئے ہی ہوتے ہیں۔۔ کوئی بھی کہانی مکمل نہیں ہوتی ہے بغیر برزگ کے۔۔مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ پینسٹھ سال سے اوپر کا ہوں۔ مجھے یہ بالکل بے وقوفی کی بات لگی کہ آپ پینسٹھ کے ہیں تو آپ کو خطرہ ہے اور چونسٹھ کے ہوں تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔ لیکن میرا دل کھول جاتا تھا،اس خیال سے، کہ جتنے ہماری فلم انڈسٹری کو کندھوں پر لے کر چلنے والے ڈیلی ویج ورکرس،میک اپ آرٹسٹ، ڈانسرز، اسٹنٹ مین، لائٹ مین، جو صفائی کرتے ہیں،جو آپ کو چائے پلاتے ہیں، جو کینٹین میں کام کرتے ہیں، ان کا رکشے والوں، ریسٹوراں کے ویٹرس وغیرہ کا کیا ہورہا ہوگا؟؟ ہم لوگ تو اوپر والے کے کرم سے اتنا رکھ پائے ہیں کہ ہمیں اس کی چوٹ محسوس نہیں ہوتی لیکن جو اپنے اپنے بچوں کولئے ہوئے اپنا اپنا سامان لادے ہوئے جارہے تھے، ان مہاجروں کی تکلیف دیکھ کر دل ٹوٹ جاتا تھا اور وہیں پر ایک حیرت سی بھی ہوتی تھی کہ کیا ہماری حکومت جو ہے، وہ اتنی سخت دل ہے کیا، اتنی سنگ دل ہے کیا کہ مدد کا ایک ہاتھ بھی نہیں بڑھایا جاسکتاہے ان لوگوں کی طرف۔۔؟

          

                 نصیر الدین شاہ اپنی ایک یادگار فلم میں


  سوال: لاک ڈاؤن میں ہم نے دیکھ اکہ اس دور میں جب انسان اپنے گھروں میں بند تھے تو پرندے نکلنے لگے۔ آسمان نیلا اور صاف دِکھنے لگا تو تمام مشکلوں کے بیچ کچھ اچھی چیزیں بھی ہوئیں پر پچھلے کچھ وقت سے ہم نے دیکھا کہ ایک نفرت ہے ملک میں جو ایک جن کی طرح بوتل سے باہر آگیا ہے۔ کیا اب وقت آگیا ہے کہ اس جنکو دوبارہ بوتل میں بند کردیا جائے؟

            جواب:میں نے یہی بات کہی تھی۔ تقریبا دو سال پہلے۔ اور مجھ پر گالیوں، الزاموں اور ملامتوں کی بارش ہوئی کہ تم غدار ہو، کہ ہمارے ملک میں ایسا ہوہی نہیں سکتا۔۔ بہت سارے لوگ ایسے تھے جو یہ کہتے تھے کہ بھئی اگر تمہیں ڈر لگ رہا ہے تو تم چلے جاؤ یہاں سے۔۔ میں یہ کہہ کہ کر تھک گیا کہ مجھے ڈر نہیں لگ رہا ہے۔ میں نے کہا کہ ان حالات کو دیکھ کر مجھے پریشانی ہورہی ہے۔ مجھے اپنے ملک کے بارے میں فکر ہورہی ہے۔۔میری تو زندگی گزر گئی اور بہت اچھی زندگی گزری ہے، اس ملک میں، ایک مسلمان کی شخصیت لے کر میں نے کبھی بھی آپریٹ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے کبھی کوئی رکاوٹ۔۔ نہ تو میرے راستے میں آئی اور نہ کبھی میرے والد اور میرے دوبھائیوں کے راستے میں آئی۔۔ میرے ایک بھائی نے زندگی بھر فوج میں کام کیا ہے اور ہندوستان کے لئے دو جنگیں لڑی ہیں۔ مجھے تو اپنی مسلم انفرادیت کا احساس ہی نہیں تھا۔ اب مجھ سے زبردستی کروایا جارہا ہے، جو لوگ مجھ سے بار بار کہتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تو چلے جاؤ یہاں سے۔ ارے بھائی اگر مجھے اپنے گھر میں کوئی بات غلط لگے تو میں گھر چھوڑ کو چلا جاؤں؟ یا اس بات کوسدھارنے کی کوشش کروں؟ تو بہ طور ایک کلاکار ہم کر بھی کیا کرسکتے ہیں، سوائے سوال اٹھانے کے؟میں تو کوئی سیاست داں ہوں نہیں اور نہ میرے پاس کوئی اختیار ہے کہ میں کوئی قانون لاسکوں۔ نہ میرے پاس کوئی ڈنڈا ہے کہ میں لوگوں کو پیٹ پیٹ کر ایک لائن میں لاسکوں۔ میں بس اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرنے والے اور اس کی فکر کرنے والے کلاکار کی حیثیت سے جو کرسکتا ہوں کر رہا ہوں۔ جہاں مسیج دے سکتا ہوں، دے رہا ہوں۔ کوئی لیڈر،عمر بھر نہیں رہتا۔نہ کوئی رہے گا۔ ہر ایک کا دور آتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔۔ لیکن جیسا کنال کامرا نے کہا جو باتیں چار بیگ پینے کے بعد ہوتی تھیں وہ صبح کی کافی پینے کے بعد ہوتی ہیں۔ مجھے اس بات سے بھی حیرت ہے کہ چھٹی ساتویں کے بچے جس طرح ایک دوسرے کو ہندو مسلمان کے طعنے دیا کرتے تھے، اب اس طرح کی باتیں کھلے عام فیس بک اور سوشل میڈیا پر کہی جارہی ہیں۔ یو شڈ نوبیٹر۔ اس طرح کی باتیں سوشل میڈیا پر ہی نہیں نیشنل ٹی وی پر بھی کہی جارہی ہیں۔ تو بس دعا کرسکتے ہیں اور اپنے دل میں نفرت نہ پالیں۔ہم یہ حلف اٹھا سکتے ہیں۔