اردو یونیورسٹی ۔ شہیدِ اعظم بھگت سنگھ کی یاد میں رنگ دے بسنتی چولا کا انعقاد

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 30-09-2025
اردو یونیورسٹی ۔ شہیدِ اعظم بھگت سنگھ کی یاد میں رنگ دے بسنتی چولا کا انعقاد
اردو یونیورسٹی ۔ شہیدِ اعظم بھگت سنگھ کی یاد میں رنگ دے بسنتی چولا کا انعقاد

 



 

حیدرآباد، 29 ستمبر (پریس نوٹ) بھگت سنگھ نے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ علم و آگہی اور جدوجہد کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ ہمیں بھگت سنگھ کے افکار اور آدرشوں کو اپنی زندگی کا شعار بنانا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر علاءالدین خان، صدر شعبہ ¿ تاریخ، شبلی نیشنل کالج، اعظم گڑھ نے کیا۔ وہ یونیورسٹی لٹریری کلب، ثقافتی سرگرمی مرکز، ڈین بہبودیِ طلبہ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے شہیدِ اعظم بھگت سنگھ کے یومِ ولادت کے موقع پر ایک پروقار پروگرام بہ عنوان ”رنگ دے بسنتی چولا“ کا انعقاد کیا گیا۔
پروفیسر علاءالدین خان نے کہا کہ بھگت سنگھ ہمیں آج بھی مشکل حالات میں جینے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ انھوں نے بھگت سنگھ کی زندگی اور ان کے نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آج کے نوجوان ان کی قربانیوں سے سبق حاصل کریں اور ایک بہتر سماج کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔
یہ پروگرام یونیورسٹی لٹریری کلب کے صدر اور ڈپٹی ڈین بہبودیِ طلبہ ڈاکٹر فیروز عالم کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کلچرل کوآرڈنیٹر جناب معراج احمد نے انتظامی امور کی ذمہ داری سنبھالی۔ میوزیم کیوریٹر جناب حبیب احمد نے تکنیکی تعاون سے نوازا۔
پروگرام میں وجاہت اللہ نے بھگت سنگھ کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالی۔ ثانیہ خاتون، شیزان ناظم اور ثنا فردوس نے بھگت سنگھ کے مختلف خطوط کی پراثر قرا ¿ت کی۔ عمران احمد نے بھگت سنگھ کی حب الوطنی اور قربانی پر روشنی ڈالی۔ جبکہ کونین رضا اور زینب نے نظمیں پیش کیں۔ ”عصر حاضر میں بھگت سنگھ کے افکار کی معنویت“ پر تاج محمد نے مضمون پیش کرتے ہوئے ان کا قول دہرایا کہ ”انقلاب کی تلوار افکار کی سان پر تیز ہوتی ہے۔“ بھگت سنگھ کا ماننا تھا کہ آزادی محض سیاسی نہیں بلکہ فکری و سماجی بھی ہونی چاہیے۔ ان کے نزدیک نوجوان ہی ایک بہتر اور منصفانہ سماج کی تشکیل کا اصل سرمایہ ہیں۔
پروگرام کے آخر میں ایک کوئز کا بھی انعقاد کیا گیا جس کی کنوینر نازیہ علی تھیں۔پروگرام کی نظامت افتخار شبلی نے کی۔ آغاز میں مدثر احمد نے حاضرین کا استقبال کیا، جبکہ مہمانِ خصوصی کا تعارف کونین رضا، سکریٹری لٹریری کلب نے کرایا۔ پروگرام کے اختتام پر سہیل مانوی نے شکریے کے کلمات پیش کیے