اسکولی تعلیم کا کوئی متبادل نہیں ۔والدین اور ماہرین تعلیم

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 31-08-2021
. ’اسکول کی تعلیم ہر حال میں ضروری ہے۔‘
. ’اسکول کی تعلیم ہر حال میں ضروری ہے۔‘

 


شاہ عمران حسن، نئی دہلی

کورونا کے سبب تعلیمی اداروں پر پڑے تالوں کو کھولنے کا سلسلہ آج سے شروع ہوگا۔ کورونا کی وبا نے جہاں دنیا کو قید کا شکار کیا وہیں بچوں کو ایک طویل عرصے تک اسکولوں سے دور رکھا ہے۔

جس کا نہ صرف تعلیم بلکہ نفسیات پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ ایک طویل انتظار کے بعد اب ہندوستان کے اندر مختلف ریاستوں میں آج یعنی یکم ستمبر 2021 سے اسکول میں دوبارہ تعلیم شروع کی جا رہی ہے۔

اگر بات کریں دہلی کی تو بیشتر پرائیوٹ اسکولوں نے آج سے انتظامات اور طریقہ تعلیم پر فیصلہ کرنے کلا اعلان کیا ہے  تاکہ بچوں کے اسکول آنے کی صورت میں سماجی فاصلہ کا خیال رکھا جائے۔

ابتداً بڑے درجات مثلاً 9 ویں 12 جماعت کے لیے اسکول کھولے جا رہے ہیں، اس کے بعد کورونا پروٹوکال اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ دیگر درجات کے لیے بھی اسکول کھولے جائیں گے۔

اس تعلق سے آواز دی وائس  نے مختلف لوگوں سے خصوصاً بچوں کے والدین سے باتیں کہ آیا اسکول کھولا جانا چاہئے یا نہیں۔

تعلیم کے بغیر ہماری ذہنی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے

نئی دہلی کے اسداللہ فہیم ایک استاد اور والد دونوں ہیں۔ وہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کودینی تعلیم دیتے ہیں۔

ان کا یہ ماننا ہے کہ اسکول ضرور کھولنا چاہئے، کیوں کہ ہماری ذہنی صلاحیت تعلیم کے بغیر مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران بہت زیادہ نقصان ہوا ہے، اس کی تلافی کرنا آسان نہیں ہے، تاہم احتیاطی تدابیر کے ساتھ اسکول ضرور کھولنے چاہئے۔

انھوں نے کہا کہ اسکول کی تعلیم کو روکنے کے نقصانات زیادہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام طرح کی ترقیاتی سرگرمیاں تعلیم سے جڑی ہوئی ہیں۔

اسد اللہ فہیم نے اپنی باتوں کی وضاحت میں کہا کہ معاشی اعتبار سے بھی اسکول کی تعلیم ضروری ہے، جو لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں، لاک ڈاون کی وجہ سے ان کی معاشی حالت غیر زدہ ہوگئی ہے، اس لیے اقتصادی اعتبار سے بھی اسکول کھولنا مفید ہے۔

awazurdu

سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہوا

ہندوستان کے مشہور شاعر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر نواز دیوبندی ’نواز گرلس پبلک اسکول‘ کے بانی اور ذمہ دار ہے، اس کے تحت ان کی تقریباً 16 درسگاہیں چل رہی ہیں، جو بطور خاص لڑکیوں کی تعلیم پر فوکس کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ظاہری نقصانات لوگوں کے سامنے ہیں، مگر سب سے بڑا نقصان ہوا ہے،جو اسکول نہ کھولنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ جس طرح سے پاور سپلائی بند ہوجانے سے پنکھے چلنے بند ہو جاتے ہیں، اسی طرح سے تعلیم پاور سپلائی کا کام کرتی ہے، جس سے ہمیں مختلف شعبوں کے لیے افراد ملتے ہیں۔

ڈاکٹرنواز دیوبندی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسکول کھول کر تعلیم دی جانی چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ لاک ڈاون کے دوران آن لائن سسٹم سے تعلیم دی جا تی رہے، ذہنی طور پر طلبا اور طالبات خود کو طالب علم سمجھتے رہے،بس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔

اب اسکول کھل رہے ہیں تو سبھی کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ والدین ، اساتذہ اور خود طالب علموں کو بھی مل کر کام کرنا ہوگا، کیوں کہ ایک سسٹم جو چل رہا تھا وہ رُک گیا ہے، اس کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ذہنی اعتبار سے تیار ہونا پڑے گا۔

لوگ مختلف معاملات میں مل بیٹھ کر مشورہ کرتے ہیں، تعلیم کے معاملے میں بھی لوگوں کو سوچنا چاہئے۔ سب سے زیادہ پیچیدہ مسائل تعلیمی مسائل ہیں، تعلیمی سفر لامحمد ہے، یہ طویل العمر سفر ہے۔

اس لیے ہمارے سماج کے ہرطبقوں کی ذمہ داری ہے کہ جو بھی ممکن ہو سکے اس کی بھرپائی کے لیے کوشش کریں۔

انھوں نے کہا کہ بطور خاص ایسے وقت میں ماں باپ کو بہت چوکنا ہونےکی ضرورت ہے۔ پورے دو سال کا زمانہ گزر چکا ہے، ان دو سالوں میں لوگوں نے جنازہ دیکھے ،بیمار دیکھے ہیں، ایسی صورت حال کو دیکھا جس کا تصورنہایت خوف ناک ہے، اب لوگ باہرآئے ہیں، ہمیں کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ بنانا ہوگا۔

ڈاکٹر نواز دیوبندی نے کہا کہ کاروبار دوبارہ کھڑا کیا جاستکا ہے ، کارخانہ بنایا جاستکا ہے ، مگر دوبارہ تعلیم کیسے شروع کی جاسکتی ہے، جو سال برباد ہوگیا وہ لوٹ کر نہیں آ سکتا ہے۔

اس لیے ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی کارخانے کو از سرنو مضبوط کریں ۔

ان کا ماننا ہے کہ بیٹوں کی تعلیم کی پر خصوصی طور پر کام کریں۔ گذشتہ برسوں میں بیٹوں نے بہت متانت کا ثبوت دے کر بہت اچھا رزلٹ دیا ہے۔ میں ایسا سمجھتا ہوں کہ اگر مائیں تعلیم یافتہ ہوں گی تو معاشرہ بھی تعلیم یافتہ ہوگا۔

لاکھوں بچوں کا مستقبل تاریکی میں

شاہنوازبدرقاسمی، وژن انٹرنیشنل اسکول سہرسہ( بہار) کے ڈائریکٹرہیں۔

انھوں نے آواز دی وائس کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ کورونا کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اگر کسی شعبہ کو ہوا تو وہ تعلیمی شعبہ ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہندوستان میں لاکھوں بچوں کا مستقبل خراب ہوچکا ہے اب وہ دوبارہ اسکول یا مدرسہ کھلنے کے باوجود نہیں پڑھنا چاہتے ہیں، غربت اور مجبوری کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچے کھانے کمانے میں لگ گئے جو بے حد تکلیف کا باعث ہے، سرکاری سطح پر ہر ریاست میں سروے ھونا چاہئے کہ آخر کار کیا وجہ ہے کہ ہم لاکھ چاہتے ہوے بھی ملک کو صد فیصد تعلیم یافتہ   بنانے میں ناکام ہیں۔

 

awazurdu

 

شہنواز بدر قاسمی نے کہا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ اسکول کو کھولنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر اسی طرح تعلیمی ادارے کورونا کی وجہ سے مستقل بند رہیں گے تو لاکھوں ملازمین جو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کام کرتے ہیں بے روزگاری کے شکار ہوجائیں گے اور بچے بھی تعلیمی سرگرمیوں سے محروم رہیں گے۔

کرایہ پر چلنے والے اکثر تعلیمی ادارے بند ہوچکے ہیں اسکول مالکان قرض میں ڈوب چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کا مشورہ

اقوام متحدہ کے دو اداروں یونیسیف اور یونیسکو کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے 19 ممالک میں اسکول بند ہونے سے 15 کروڑ سے زائد بچے متاثر ہوئے ہیں اور اس سے ’پوری نسل کی تباہی‘ کا خطرہ ہے۔

یونیسیف اور یونیسکو کے حکام نے کہا کہ ’حکومتوں نے کئی مرتبہ اسکول بند کیے ہیں اور انہیں لمبے عرصے تک بند کیے رکھا۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی اسکولوں کو بند کیا گیا جب اس کی ضرورت نہیں تھی۔

یونیسیف اور یونیسکو نے مشورہ دیا ہے کہ اسکول سب سے آخر میں بند ہونے چاہیں اور سب سے پہلے کھلنے چاہیں۔

یونیسیف کے اہلکار ہینریتا فور نے کہا کہ ’ہم فیصلہ سازوں اور حکومتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ نسلوں کی تباہی سے بچانے کے لیے محفوظ طریقے سے سکولوں کو کھولنے کو ترجیح دیں۔ ہم تعلیم میں مزید رکاوٹ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

وبائی مرض کو بچوں اور نوجوانوں کی ایک پوری نسل، خاص طور پر انتہائی کمزور لوگوں پر زندگی بھر کے اثرات سے بچانے کے لیے ، اسکولوں کو جلد از جلد محفوظ طریقے سے دوبارہ کھولنا چاہیے اور کھلے رہنا چاہئے۔

درناک پس منظر

ہر برس کچھ اچھی اور برُی یادیں چھوڑ کر ماضی کا حصہ بن جاتا ہے، ان میں کچھ برس ایسے ہوتے ہیں، جنہیں یاد کرنا بہت اچھا لگتا ہے اور کچھ ایسے کہ جس کو سوچ کر بھی روح فنا ہو جاتی، طبیعت میں بے چینی اور وحشت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک برس2020ءگزرا ہے، جس کے اندر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بے شمار واقعات رونما ہوئے۔

سن2019ءکا خاتمہ ایک ایسی بیماری کی ساتھ ہوا، جس نے عالم انسانیت پر تباہی کے زبردست اثرات مرتب کئے ، ساری دُنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا تقریباً ہر شہری اس سے بُری طر ح متاثر ہوا۔ یہ بیماری چوں کہ دسمبر 2019ءمیں ظاہر ہوئی، اس لیے اس کو کوویڈ۔19(covid-19) یا کورونا وائرس(coronavirus) کے نام دیا گیا۔

کورونا وائرس عالمی وبا

گذشتہ11 مارچ2020ءکو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کو ایک وبا تسلیم کیا گیا کیوں کہ اس کی وجہ سے بے شمار افراد ہلاک ہو رہے تھے۔

کورونا وائرس کی بیماری چین کے شہر وہان سے شروع ہوکر عالمی سطح پر پھیل گئی، ابتداً یورپ اور دیگر ممالک میں اس کے اثرات نمایاں رہے، اس کے بعد ہندوستان میں بھی اس وبا نے پیر پھیلانے شروع کر دیے۔

عام طور پراس بیماری سے بچنے کے لیے سماجی دوری (Social Distanceing) ماسک اور بار بار ہاتھ دھونا کہا گیا۔

اس کے تحت لوگوں نے ماسک لگانا اور ہاتھ میں سینیٹائزر کا استعمال شروع کردیا۔

دریں اثنا ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد پانچ سو گئی ، اس کے بعد ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لیے 19مارچ2020ءکو رات کے آٹھ بجے قوم سے خطاب کرتے ہوئے آئندہ 22مارچ 2020ءکو یک روزہ ’جنتا کرفیو‘ کا اعلان کردیا۔ یک روز جنتا کرفیو کے بعد 24 مارچ 2020 سے پورے ملک میں لاک ڈاون نافذ کردیا گیا، جو کہ 68 دنوں تک جاری رہا۔

اس کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں تالا بندی لگ گئی، ساری سڑکیں سنسان ہوگئیں، لوگ گھروں میں بند ہوگئے، ہر طرف چھائی ہوئی خاموشی کا لوگوں نے بھیانک منظر دیکھا۔

لوگ کیا چاہتے ہیں

 لوگوں سے گفتگو کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہےکہ تقریباً تمام لوگ اس کے حق میں ہیں کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ اسکول کھولے جائیں اور ایام کورونا سے پہلے جس طرح سے تعلیم دی جاتی تھی، اسی طرح سے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ ذہنی اور جسمانی دونوں اعتبار سے بچے، جو قوم اور ملک کے  مستقبل ہیں، وہ تیار ہوسکیں۔