نابینا بچوں کی تعلیم کے لئے وقف ہے عارفہ شبنم کی زندگی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-02-2021
ایک عظیم انسانی  مشن
ایک عظیم انسانی مشن

 

 میں نے کوئی سورج کوئی تارا نہیں دیکھا، کس رنگ کا ہوتا ہے اجالا نہیں دیکھا

سنتے ہیں اپنے ہی تھے گھر لوٹنے والے، اچھا ہوا میں نے یہ تماشا نہیں دیکھا

فیضان خان/آگرہ

ملک کی مشہور شاعرہ عارفہ شبنم نے مندرجہ بالا خطوط کو زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ ایک ایسا مقصد جو بچوں کو زندگی گزارنے کے مشکل راستے کو سرکرنے کی ترغیب دے۔ عارفہ شبنم نہ صرف ان بچوں کو آشیانہ فراہم کرتی ہیں بلکہ اعلی مقام کے حصول کے لئے ان کی مدد بھی کرتی ہیں۔ خود نابینہ ہونے کے باوجود وہ ان بچوں کی زندگی کو احساسات کے رنگوں سے رنگنا چاہتی ہے۔

صرف یہی خواہش ہے کہ یہ بچے وہ مقام حاصل کر لیں کہ کوئی ان کو بوجھ نہ سمجھے۔ ان کی محنت کے صلے میں انہیں 2005 میں گورنر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ عارفہ شبنم نے اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی اپنی شاعری کا جلوہ بکھیرا ہے۔

نوکری کر دی قربان

عارفہ شبنم آگرہ کے جگنیر بلاک کے ریجہوّا انٹر کالج میں میوزک ٹیچر تھیں۔ پروموشن کے بعد پرنسپل کے عہدے تک بھی پہنچی لیکن بچوں کو کم وقت دینے کی وجہ سے اگست 2020 میں وی آر ایس لے لیا۔ وہ اپنی تنخواہ کا 60 فیصد نابینا بچوں پر خرچ کرتی ہیں۔ وی آر ایس کے بعد اس نے لوگوں سے بچوں کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔

قائم کر دیا اسکول

وی آر ایس کے بعد جو رقم انھیں ملی ، اس سے انہوں نے متھرا روڈ پر فرح کے قریب  نابینا بچوں کے لئے ایک ادارہ شروع کیا ہے۔

اس ادارے میں بچوں کے لئے رہائش کی بھی سہولت ہے۔ اس اسکول میں بچوں کے اندر موجزن خواب کی نشو نما کی جاتی ہے۔ ایسے بے رنگ خواب جو زندگی کی روشنی کے متلاشی ہیں۔ ان خوابوں میں رنگ بھرنے والی ڈاکٹرعارفہ شبنم کہتی ہیں کہ یہاں ہندو اور مسلم سمیت تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں مذہب کو نہیں بلکہ انسانیت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہاں سے ٹریننگ لینے والے اب تک 40 سے زیادہ بچے سرکاری اور نجی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔

عارفہ شبنم نے بتایا کہ بچوں کو کمپیوٹر ڈپلوما ، سمارٹ کلاسز ، انگلش اسپیکنگ اور آن لائن کلاسز میں ٹریننگ دی جاتی ہے۔