عربی،فارسی اور اردو رسم الخط کا حسن فن خطاطی میں ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 28-06-2022
عربی،فارسی اور اردو رسم الخط کا حسن فن خطاطی میں ہے
عربی،فارسی اور اردو رسم الخط کا حسن فن خطاطی میں ہے

 

 

نئی دہلی:’’ خطاطی ایک لطیف فن ہے، جس نے صدیوں لوگوں کے ذوق لطیف کی آبیاری کی ہے،لہٰذا اس فن کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ان خیالات کا اظہار آج یہاں سرکردہ شخصیات نے معروف خطاط محمدذکیرالدین کی تصنیف کردہ کتاب ’خطاطی کی مختصر تاریخ‘کا اجراء کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر سینئر صحافیوں معصوم مرادآبادی اور سہیل انجم نے فن خطاطی اور صاحب کتاب کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ مصنف محمد ذکیر الدین نے کہا کہ اس کتاب کو لکھتے وقت زبان و بیان کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ قارئین آسانی سے موضوع سمجھ سکیں۔

کتاب کی ترتیب بالکل نئی ہے۔ اس کتاب کو دیباچہ کے علاوہ13/ ابواب میں تقسیم کیا گیاہے، جس کا پہلا باب قبل اسلام کے منظر نامے پر مشتمل ہے اور آخری باب میں بر صغیر ہندو پاک میں خطاطی اور خطاطوں کا ذکر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب تک دنیا قائم ہے ہر موضوع پر تصنیف کا سلسلہ چلتارہے گا اور یہ چلتا رہنابھی چاہئے۔ پروگرام کی صدارت سابق رکن پارلیمان اور سفیر م۔افضل نے کی جبکہ پدم شری پروفیسر اخترالواسع بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

مہمان خصوصی پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ اردو، عربی اور فارسی زبانوں کو یہ اعزا ز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے خط کوفنون لطیفہ میں شامل کیا، خطاطی فن لطیف ہے اور کسی دوسری زبان کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے، مجھے خوشی ہے کہ محمد ذکیر الدین نے ایک ایسے وقت میں یہ کتاب لکھی ہے جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمپیوٹر کی اپنی اہمیت ہے لیکن کمپیوٹر میں جنبش قلم، احساسات کی ندرت اور انگلیوں کا لمس آہی نہیں سکتا، لیکن کمپیوٹر بھی ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں اس کو لے کرپریشان نہیں ہونا چاہئے۔ اس طرح کی کوشش کرنی چاہئیں کہ کس طرح ہم خطاطی اور کمپیوٹر کو مربوط کر سکیں۔

سینئر صحافی معصوم مراد آبادی نے کہا کہ ذکیر الدین نے ایک ایسے وقت میں فن خطاطی پر کتاب تصنیف کی ہے،جب لوگ اس فن کو بھولتے چلے جا رہے ہیں یہ ایسا کارنامہ ہے جس کے لئے انہیں بجا طور پر داد دی جانی چاہئے۔

انھوں نے کہا کہ محمدذکیر الدین شریف النفس انسان ہیں۔میں نے اپنی زندگی میں جو بہت اچھے، نستعلیق اورکھرے انسان دیکھے ہیں ان میں ذکیر الدین سر فہرست ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ذکیر الدین کتابت اور خوشنویسی کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور ادارت سے بھی وابستہ ہیں لیکن انہوں نے دوسروں کی طرح کبھی اس پر غرور نہیں کیا بلکہ اپنی کاوشوں کو نہایت عاجزی اور انکساری کیساتھ پیش کرکے ارباب ادب و صحافت کی داد پاتے رہے۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے م۔ افضل نے کہا کہ میں پچھلے دنوں میں ایران کے سفر پر گیا تھا، وہاں میں نے دیکھا مقامی لوگوں نے فن خطاطی کو زندہ رکھا ہواہے اور بہت شوق کے ساتھ وہ لوگ بازاروں میں آویزاں بینر کاتب حضرات سے لکھوانے کا کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ محمدذکیر الدین ہی نہیں بلکہ معصوم مرادآبادی اور سہیل انجم نے بھی اپنے صحافتی کیریر کا آغاز میری ادارت میں شائع ہونے والے ہفتہ وار ’اخبارنو‘ سے کیا اور آج یہ لوگ اپنے اپنے میدان میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔۔

انہوں نے کہا کہ فن خطاطی کی موجودہ صورتحال پرمایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنے فن میں ماہر ہوجائیں، تب آپ کو قدر بھی ملے گی اور آپ کو کام بھی ملے گا، اور آپ کو زندگی میں بہت کچھ حاصل ہوگا۔اس فن کو ایک بار پھر اسی آب وتاب کے ساتھ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

صحافی سہیل انجم نے ذکیر الدین کی شخصیت اور فن پرخاکہ پڑھ کرسنایا۔ڈاکٹر عقیل احمد اور افضل منگلوری نے صاحب کتاب کو مبارکباد پیش کی۔شرکاء میں کالم نگار عظیم اخترکے علاوہ ممتاز خطاطوں میں عطا ء اللہ اختر،کفیل احمد قاسمی، سہیل احمد، عبد الماجد، ابو بکر قاسمی، انیس صدیقی، عبد المنان کے علاوہ ارشد سراج الدین مکی، ظفرانور اور حافظ نصیر سمیت بڑی تعداد میں لوگ موجود رہے۔ (ایجنسی)