ازبکستان میں اردو ہندی کی تدریس: انڈو ازبک تعلقات کی توسیع

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
پروفیسر خواجہ اکرام
پروفیسر خواجہ اکرام

 

 

 نئی دہلی:ورلڈ اردو ایسوسی ایشن اور جنوب ایشیائی زبانوں کا شعبہ،تاشقند اسٹیٹ یونیورسٹی آف اورینٹل اسٹڈیز، تاشقند، ازبکستان کے زیر اہتمام یک روزہ بین الاقوامی سیمنار بہت ہی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔اس میں ازبکستان، ہندستان ، پاکستان ،کناڈا، برلن، ڈنمارک ، ماریشس اور کئی یوروپی ممالک کے نامور ادیبوں اور اساتذہ نے شرکت کی۔ اس سیمنار کا افتتاح تاشقند اسٹیٹ یونیورسٹی آف اورینٹل اسٹڈیز کی ریکٹر محترمہ پروفیسر گل چہرہ رخسیوا نے کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں اس بات کاذکر کیا کہ تقریباً ستر سال سے یہاں اردو۔ہندی کی تدریس ہورہی ہے۔اس شعبے نے اردو۔ ہندی کے بڑے ادیبوں کو جنم دیا ہے اور ہندستان کے درمیان تہذیبی روابط مضبوط کرنے کی سمت میں اہم اقدام کیا ہے۔انھوں نے اس شعبے کو مزید ترقی دینے کا عہد کیا۔پروفیسر خواجہ اکرام نے اپنے استقبالیہ کلمات میں تمام اساتذہ ، ادبا اور طلبہ و طالبات کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ اردو ایسوسی ایشن اردو زبان و تہذیب کی ترویج کے لیے کام کررہا ہے اسی سلسلے کی یہ ایک اہم کڑی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مشرق وسطی میں تاشقند اردو۔ ہندی تعلیم و تدریس کا عظیم مرکز ہے۔ یہاں کے ادیبوں میں کئی بڑے نام ہیں جنھوں نے اردو زبان و ادب اور ہندی ادب کے لیے نہایت ہی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔تاشقند میں موجود اردو ہندی کے اساتذہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھوں نے اپنی جانب سے بھر پور معاونت کی یقین دہانی کرائی۔ کناڈا سے ڈاکٹر سید تقی عابدی مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے انھوں نے تاشقند میں موجود اردو۔ ہندی کے اس مرکز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ تہذیبی اعتبار سے برصغیر ازبکستان سے بہت قریب ہے۔اس لیے ہمیں اس سمت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔دوسرے مہمان خصوصی کلچر ل کانسلر کے ڈائریکٹر پروفیسر چندر شیکھر نے بتایا کہ ہندستانی حکومت اس سمت میں کافی اہم کوششیں کر رہی ہے اور مستقبل قریب میں کئی اہم اقدامات ہونے ہیں۔

 ڈنمارک سے مہمان خصوصی جناب نصر ملک صاحب نے بتایا کہ ہم تو اس سے پہلے واقف ہی نہیں تھے کہ تاشقند میں اردو کا اتنا بڑا شعبہ موجود ہے۔ البتہ پروفیسر خواجہ اکرام کی تحریروں سے کچھ واقفیت ہوئی تھی۔ انھوں نے یونیورسٹی کی ریکٹر اور تمام اساتذہ کو مبارک باد پیش کی۔ افتتاحی تقریب کی صدارت ازبیکستان میں اردو کے بڑے محسن استاد محترم ڈاکٹر تاش مرزا صاحب نے کی۔ انھوں نے ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کی اس پہل کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ یقیناٍ بہت اہم سیمنار ہے جس میں ہندستان ، پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے احباب شریک ہیں اس سے ہمارے اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہوگی اور انھیں مزید کام کرنے کی تحریک ملے گی۔افتتاحی تقریب کے اختتام پر جنوب ایشیائی زبانوں کی صدر پروفیسر الفت محب جو ہندی کی بڑی ادیبہ ہیں ، بابری عہد کے ادب پر ان کا بڑا اہم تحقیقی کام ہے۔ انھوں نے ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر خواجہ اکرام کی بدولت ہمیں یہ موقع ملا کہ دنیا کے سامنے ہمارے اساتذہ نے اپنے مقالے پیش کیے اور اس طرح ردو۔ ہندی ورلڈ میں ہماری رسائی ہوسکی۔اس سیمنار کی نظامت ڈاکٹر محیا عبد الرحمانوانے کی۔ ان سے شگفتہ اور شستہ لب و لہجے میں اردو سن کر سامعین حیرت زدہ تھے تمام سامعین نے ان کی اردو زبان اور لہجے کی خوب تعریفیں کیں۔

 سیمینار کے تکنیکی اجلا س کا موضوع " اردو۔ ہندی شعر و ادب میں سماجی اور معاشرتی مسائل کی عکاسی " تھا جس کی صدارت پروفیسر خواجہ اکرام اور پروفیسر دیویندر چوبے نے کی۔ اس اجلاس میں مندرجہ ذیل اردو ہندی کے اساتذہ نے اپنے مقالے پیش کیے۔ بابری عہد کا ادب۔ڈاکٹر تمارہ خود جا ئیوا ، ازبیک ہند ادبی تعلقات۔ڈاکٹر شیرین جلیلوا ، پراچین بھارتی اور ازبیک تاجکوں کی سانسکرتک سمانتا و ¿ں کا تجزیہ۔ڈاکٹر محیا عبد الرحمانوا، ڈپٹی نذیر احمد کے ناول" ایامیٰ" میں بیوگی کے مسائل۔ڈاکٹر سراج الدین نو رماتوف، ہند آریائی زبانوں میں نظام عددکا ارتقا۔مکتوبہ مرتضیٰ خوجا ئیوا ،یاشپل اور چنپا بھار تی کے فن : مشابہا ت اور تفرقات۔عدالت یونسوو ا ، ازبیکستان میں سنیتا جین کی تصانیف کا مطالعہ۔محرم میرزا ئیوا ، اردو کے طلبہ کی تعلیم میں اردو کہانیوں کی اہمیت۔معمورہ سلیمانوا ، پریم چند کے افسانوں میں سماجی مسائل۔مہری مما جانوا ، امریتا پریتم کی شاعری کے چند پہلو۔شاہراہ میدوا مخلصہ ، بابر نامہ کے اردو تراجم۔کمالہ ا یرگاشیوا،اردو اور ا زبیک زبانوں کی تاریخی مماثلتیں۔موجودہ صادیقوا، ازبیکستان میں ہندی کی تدریس۔ان مقالوں کے بعدپروفیسر چوبے نے مقالوں پر بھر پورروشنی ڈالی۔بر لن کے مہمان جناب عارف نقوی نے تمام مقالوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ غیر ملکیوں سے اتنی صاف ستھری زبان سننا یقیناًٍ حیرت کی بات ہے۔انھوں نے سب کو مبارکباد پیش کیا۔پروفیسر الیاس مہر پاکستان اور ڈاکٹر شگفتہ فردوس پاکستان نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے ان کی تعریف کی اورتعلیم و تدریس کے لیے اپنی معاونت کی پیشکش کی۔پروفیسر خواجہ اکرام کے شکریے کے ساتھ اس سیمینار کا اختتام ہوا۔