اسلام میں استاد کا درجہ اور احترام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 29-03-2024
اسلام میں  استاد کا درجہ اور احترام
اسلام میں استاد کا درجہ اور احترام

 

زیبا نسیم: ممبئی

دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ رشتہ استاد اور شاگرد کا ہے لیکن اس رشتے میں ترقی اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کئے جائیں۔استاد کا دل علم کا سمندر ہوتا ہے اور وہ اپنا علم اپنے شاگرد کو دینے میں ذرہ بھر خیانت نہیں کرتا۔

استاد دنیا کے کسی کونے میں چلا جائے اس کا تعلق اپنے شاگرد سے کبھی نہیں ٹوٹتا ۔ جس طرح ایک ماں کا دل اپنی ہر اولاد کے لیے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سموئے ہوتا ہے اسی طرح ایک استاد کےدل میں بھی اپنے شاگرد کے لیے یہی سمندر موجزن رہتا ہے، ادارے بدل جائیں ، تدریسی ماحول بدل جائے لیکن استاد اور شاگرد کا رشتہ روح سے نشوونما پاتا ہے اور سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ رشتہ استاد اور شاگرد کے مابین روز اول سے جڑ جاتا ہے اور تاعمر رہتا ہے یہ رشتہ زماں اور مکاں کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔روح سے جڑے رشتوں کی یہی دلکشی تو انھیں لازوال بناتی ہے۔

استاد اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے، حضور ﷺ نےفرمایا:جسے خواہش ہے کہ وہ جہنم سے آزاد شدہ لوگوں کو دنیا میں دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ طلبائے اسلام کی زیارت کرے۔ بخدا ہر وہ طالب علم جو اپنے استاد گرامی کے ہاں درس گاہ یا ان کے گھر پر حاضری دیتا ہے تو اسے ایک سال کی عبادت کا ثواب نصیب ہوتا ہے اور اسکے ایک ایک قدم کے بدلے بہشت میں اس کے لیے ایک شہر تیار ہوگا اور وہ زمین پر چلتا ہے تو زمین اسے دعائیں دیتی ہیں اور ہر شام و سحراس کی مغفرت کا اعلان ہوتا ہے اورفرشتے گواہی دیتے ہیں کہ یہ طلبائے اسلام دوزخ سے آزاد ہیں۔ (روح البیان، پ11)

شاگرد جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کرے وہ علم تو شاید حاصل کرلے مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے۔استاد کے حقوق پورے کرنے کے لئے پہلے حقوق جاننا ضروری ہیں۔لہٰذا استاد کے حقوق پیشِ خدمت ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے

استاد کا ادب و احترام شاگرد پر لازم ہے بغیر ادب کے وہ اپنے استاد سے فیض یاب نہیں ہوسکتا۔استاد کے ادب کی وجہ سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں،ادب ہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے شاگرد اپنے معلم کے نزدیک محترم بن جاتا ہے۔ادب کا وہ مقام ہے جس سے علم بھی لا علم ہے۔

استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا طالبِ عالم کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نازِ دوزخ اورمصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔ اگر استاد کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے والدین یا کسی عزیز کی وفات ہوجائے یا اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غمخواری کرے اور حدیث ِ پاک میں بیان کردہ ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو کسی غمزدہ سے تعزیت کرے

آپﷺ نے فرمایا،’’مَیں تمہارے لیے بہ منزلہ والد ہوں کہ تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔‘‘ امیرالمومنین حضرت عُمرؓ سے پوچھا گیا ،’’ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دِل میں کوئی حسرت باقی ہے۔‘‘ آپؓ نے فرمایا’’کاش! مَیں ایک معلّم ہوتا۔‘‘ اسی طرح بابُ العلم، خلیفۂ چہارم حضرت علیؓ کا یہ قول استاد کی عظمت کی غمّازی کرتا ہے کہ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، مَیں اس کا غلام ہوں۔‘‘ایک معلّم کے فرائض دراصل دیگر افراد کے فرائض سے کہیں زیادہ مشکل اور اہم ہیں کہ بیش تر اخلاقی، سماجی، تہذیبی و تمدّنی اور دینی و دُنیاوی ذمّے داریاں اُسی کے سَر ہوتی ہیں۔ گویا اصلاحِ معاشرہ کی کلید اس کے ہاتھ ہے۔

اسلام نے مسلمانوں پر علم فرض قراردیا ہے وہیں اسلام کی نظر میں استاد کو معزز رتبہ دیا ہے تاکہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے۔ علم کی قدر اُس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت دی جائیگی اور ہمیشہ وہ طالب علم ہی کامیاب ہوتے ہیں جو استاد کا احترام کرتے ان کی عزت کرتے ہیں۔ جنہوں نے مقام پایا وہ استاد کی عزت سے ہی ممکن ہوا۔

ایک  واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ  ایک بادشاہ جس کی بادشاہت کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ اپنے استاد کے ساتھ سفر کرنے کے لیے نکلا، راستے میں ایک ندی آگئی استاد نے آگے بڑھ کر ندی کو پار کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے استاد محترم سے کہا کہ استاد محترم! ندی کو پہلے میں پار کروں گا۔ استاد کو بہت برا محسوس ہوا کہ شاگرد اگر بادشاہ ہے توکیا ہوا میں ان کا استاد ہوں۔ تکریم اور فضیلت میں مجھے مرتبہ حاصل ہے۔ اس لیے ندی کو پہلے پارکرنا میرا حق ہے۔ بادشاہ نے ان کی بات سنی اورکہا۔ استاد محترم! آپ کی بات سر آنکھوں پر بے شک آپ کا مرتبہ اور عزت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ آپ ہی میرے استاد ہیں اور پہلے ندی پار کرنے میں میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ نے ندی پہلے پار کی اور اس کے نتیجے میں آپ کی جان چلی گئی تو پورے عالم کا نقصان ہوگا اس لیے میں نے سوچا کہ پہلے ندی میں پارکروں تاکہ پانی کی تندی کا اندازہ ہوسکے کیونکہ میرے ندی عبور کرنے کے نتیجے میں اگر میری جان چلی گئی تو صرف ایک شہنشاہ کی جان جائے گی آپ زندہ رہے تو مجھ جیسے کتنے بادشاہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ سکندر اور استاد ارسطو تھے۔

در اصل استاد ہی انسان کو معاشرے میں جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے،اور غلط سہی کی پہچان کراتا ہے۔ اسی لیے استاد کو پوری قوم کا معمار کہا جاتا ہے۔کیونکہ ایک استاد کی دی ہوئی اچھی تربیت سے نسلیں ترقی کرتی ہیں۔اور انسان کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کو پھر کسی استاذ کا ہی دامن تھامنا پڑتا ہے۔ اس طرح استاد کے علم سے استفادہ کرلینے کے بعد انسان روزگار حاصل کرنے کے قابل بنتا ہے۔ جب بھی انسان اپنے آپ کو ترقی یافتہ پاۓ گا تو اس کی زندگی کے رموز و اوقاف کے فریم پر سنہرے حرفوں سے “استاد” لکھا ہوگا۔ تعلیم قومی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ تعلیم یافتہ افراد ہی سماجی زندگی کے تانے بانے بنتے ہیں۔ وقت کی نبض پر انہی کی نظر ہوتی ہے۔بدلتے حالات کا تجزیہ کرتے ہوۓ منصوبہ بندی بھی انہی کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے۔قوموں کے عروج و زوال میں تعلیمی زندگی اور ان کے تقاضوں پر عمل آوری فیصلہ کن کردار نبھاتی ہے۔