لبنیٰ صفدر
آج ایک اور نئے سال کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ نہ سورج، چاند، زمین کی گردش میں کبھی ایک لمحہ کا فرق آیا۔ نہ ماہ وشب کا سلسلہ کبھی رْکا۔ پھول اپنے وقت پر کھلتے اور مسکراتے ہیں۔ ہوائیں اپنی بھید بھری خوشبوئیں فضائوں میں بکھیرتی رہتی ہیں۔ موسم اپنے وقت مقررہ پر آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن ہرگزرا ہوا سال کچھ تلخ کچھ میٹھی یادیں ہمارے لئے ضرور چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
اب پچھلے دوسال سے تمام دْنیا کورونا کے روپ میں ایک نئے تجربے اور مسائل سے گزری۔ لاکھوں کی زندگیاں کورونا نے نگل لیں۔ بہت سے ہمارے پیارے ہم سے یوں بھی جدا ہوگئے لیکن بہت سی زندگیاں دھرتی پر مسکرائی بھی تو ہیں۔ کئی پھول گھروں کے آنگنوں کی زینت بنے ہیں۔ مصائب آتے جاتے رہتے ہیں۔ وبائیں پہلے بھی آتی تھیں لیکن اْسی پاک ذات نے انسان کے اندر ان مصائب کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی رکھا ہے۔
ان کو سہنے اور برداشت کرنے کی طاقت بھی عطا کی ہے۔ مصائب جتنے بھی بڑے ہوں، حالات خواہ کتنے بھی کٹھن ہوں لیکن خوشیوں کے چند پل ان تلخیوں کو تحلیل کردیتے ہیں۔ انسانی فطرت میں اللہ پاک نے بڑی لچک رکھی ہے۔ وہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ حوصلے اور ہمت سے گامزن رہتا ہے۔ یہی زندگی ہے اور یہی زندگی کی خوبصورتی ہے۔
اس بات پر تو اتفاق باقی ہے کہ جو چیز نہ رہے یا گزر جائے وہ نہ جانے کیوں اچھی اچھی سے لگتی یا اس کی یاد ستاتی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے ’الوداع 2022‘ کے ٹرینڈ سمیت متعدد دیگر عنوانات کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کیا تو اظہار خیال کے لیے کہیں شاعری، کہیں نثر اور کہیں تصویری میمز کا سہارا لیا گیا۔
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
ابن انشا
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
احمد فراز
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
فیض لدھیانوی
کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے
کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے
اعتبار ساجد
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
مرزا غالب
یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
امیر قزلباش
پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ
راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی
عزیز نبیل
ایک برس اور بیت گیا
کب تک خاک اڑانی ہے
وکاس شرما راز
یہ کس نے فون پے دی سال نو کی تہنیت مجھ کو
تمنا رقص کرتی ہے تخیل گنگناتا ہے
علی سردار جعفری
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
علی سردار جعفری
اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
لو ساتھ چھوڑنے لگا آخر یہ سال بھی
حفیظ میرٹھی
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
دیوار سے پرانا کلینڈر اتار دے
ظفر اقبال
جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
قتیل شفائی
دلہن بنی ہوئی ہیں راہیں
جشن مناؤ سال نو کے
ساحر لدھیانوی
عمر کا ایک اور سال گیا
وقت پھر ہم پہ خاک ڈال گیا
شکیل جمالی
گزشتہ سال کوئی مصلحت رہی ہوگی
گزشتہ سال کے سکھ اب کے سال دے مولا
لیاقت علی عاصم
نیا سال دیوار پر ٹانگ دے
پرانے برس کا کلنڈر گرا
محمد علوی
پچھلا برس تو خون رلا کر گزر گیا
کیا گل کھلائے گا یہ نیا سال دوستو
فاروق انجینئر
اس گئے سال بڑے ظلم ہوئے ہیں مجھ پر
اے نئے سال مسیحا کی طرح مل مجھ سے
سرفراز نواز
اک پل کا قرب ایک برس کا پھر انتظار
آئی ہے جنوری تو دسمبر چلا گیا
رخسار ناظم آبادی
پلٹ سی گئی ہے زمانے کی کایا
نیا سال آیا نیا سال آیا
اختر شیرانی
مبارک مبارک نیا سال آیا
خوشی کا سماں ساری دنیا پہ چھایا
اختر شیرانی
سال نو آتا ہے تو محفوظ کر لیتا ہوں میں
کچھ پرانے سے کلینڈر ذہن کی دیوار پر
آزاد گلاٹی
کرنے کو کچھ نہیں ہے نئے سال میں یشبؔ
کیوں نا کسی سے ترک محبت ہی کیجیے
یشب تمنا
اے جاتے برس تجھ کو سونپا خدا کو
مبارک مبارک نیا سال سب کو
محمد اسد اللہ
منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال
ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے
افتخار عارف
اور کم یاد آؤگی اگلے برس تم
اب کے کم یاد آئی ہو پچھلے برس سے
سوپنل تیواری
ایک لمحہ لوٹ کر آیا نہیں
یہ برس بھی رائیگاں رخصت ہوا
انعام ندیمؔ
سال گزر جاتا ہے سارا
اور کلینڈر رہ جاتا ہے
سرفراز زاہد