سرسید ایمان اور عقل میں تطبیق کے قائل تھے- پروفیسر قدوائی

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 26-10-2025
 سرسید ایمان اور عقل میں تطبیق کے قائل تھے- پروفیسر قدوائی
سرسید ایمان اور عقل میں تطبیق کے قائل تھے- پروفیسر قدوائی

 



 علی گڑھ، : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے ڈائیلاگ فورم کے تحت ’’سرسید: تعلیم اور اس سے آگے‘‘ کے عنوان سے ایک لیکچر فیکلٹی آف آرٹس کے لاؤنج میں منعقد ہوا۔ یہ خطاب پروفیسر ایم شافع قدوائی، ڈائریکٹر سرسید اکیڈمی، اے ایم یو نے پیش کیا۔ انہوں نے سرسید احمد خاں کے عقلیت پسند نظریے، اصلاحی وژن اور ان کی فکر کی موجودہ دور میں معنویت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

پروفیسر قدوائی معروف مصنف، دو لسانی نقاد، مترجم اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (2019) کے حامل ہیں۔ ان کی مشہور تصنیف "Sir Syed Ahmad Khan: Reason, Nation and Religion" (رٹلیج، 2020) کو علمی حلقوں میں بے حد سراہا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرسید نے مذہبی و سماجی حساس موضوعات پر جذباتیت یا تصادم کے بجائے استدلال، قانونی چارہ جوئی اور علمی مکالمے کو ترجیح دی۔ ولیم میور کے اعتراضات کے جواب میں ان کی تصنیف ’’خطبات احمدیہ‘‘ اسی علمی مزاج کی بہترین مثال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سرسید ایمان اور عقل کے درمیان توازن کے قائل تھے، اور انہوں نے مذہبی تشریحات کو جامد نہیں سمجھا۔ خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں بھی ان کا نقطۂ نظر مثبت تھا، لیکن اس دور کے سماجی حالات کے پیشِ نظر وہ مردوں کی تعلیم کو ترجیح دیتے تھے تاکہ معاشرے میں تعلیمی بنیاد مضبوط ہو۔

پروفیسر قدوائی نے طلبہ کو عقلیت پسندی، خود انحصاری، فکری دیانت اور آزادیِ اظہار اپنانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا، ’’جب ہم کتابیں جلاتے ہیں تو دراصل ہم انسانوں کو جلا دیتے ہیں‘‘ — یعنی علم سے بیزاری دراصل انسانیت سے بیزاری ہے۔

پروگرام کے آغاز میں شعبہ فلسفہ کے صدر ڈاکٹر عامر ریاض نے خیرمقدمی کلمات ادا کیے اور سرسید کے فلسفیانہ و اصلاحی کردار پر روشنی ڈالی۔

ڈین فیکلٹی آف آرٹس، پروفیسر ٹی۔ این۔ ستیسن نے صدارتی خطاب میں سرسید کی فکری تحریک کی پائیدار اہمیت کو سراہا اور کہا کہ مکالمہ، مباحثہ اور روایتی حدود سے آگے سوچنا ہی حقیقی علم کی روح ہے۔اختتام پر ڈاکٹر عقیل احمد نے سرسید کے سیاسی، سماجی اور فکری کارناموں کا خلاصہ پیش کیا، جبکہ نظامت محترمہ ہبہ صدیقی نے انجام دی۔ پروگرام کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر زید احمد صدیقی نے شکریہ ادا کیا۔