اے ایم یو:مغلیہ دور میں بین المذاہب مطالعات پر سیمینار

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-03-2022
اے ایم یو:مغلیہ دور میں بین المذاہب مطالعات پر سیمینار
اے ایم یو:مغلیہ دور میں بین المذاہب مطالعات پر سیمینار

 

 

آواز دی وائس، علی گڑھ

نامور مؤرخ، ترقی پسند دانشور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر عرفان حبیب نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے مغلیہ دور میں مذہبی مکالمات کی تصویریں پیش کیں۔

وہ سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ، اے ایم یو کے زیر اہتمام تین روزہ بین الاقوامی سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں ’اکبر سے دارا شکوہ تک بین المذاہب مکالمے کا عظیم دور: بنیادی متون کا ایک جائزہ‘ موضوع پر خطاب کررہے تھے۔

پروفیسر عرفان حبیب نے مغل دور میں مکالمات کے طریقوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ”مغل شہنشاہ اکبر کا دور ہم آہنگی کی علامت تھا جس کی مثال دوسرے ادوار میں بہت کم ملتی ہے۔ وہ متجسس، کھلے اور عملی ذہن کا انسان تھا اور اس نے باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں ہونے والے بین المذاہب عوامی مکالمے کی ہر طرح سے حمایت کی، جس کے باعث سبھی مذاہب-

ہندو، مسلمان، یہودی، پارسی، جین، اور یہاں تک کہ ملحد بھی ایک ساتھ جمع ہوئے“۔ انھوں نے واضح کیا ”اکبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اعلان کیا کہ اس کا واحد مقصد ہندو، مسلمان سمیت کسی بھی مذہب کے حقائق کو منظر عام پر لانا تھا اور ہندو برہمنوں کے ساتھ ان مکالموں اور ذاتی میل جول کی وجہ سے اس نے ہندو فکر کے مختلف مکاتب فکر کا گہرا علم حاصل کرلیا۔چنانچہ روح کی منتقلی اور الہی تناسخ کے سلسلہ میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ کہا ’'ہند (ہندوستان) میں کسی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا-

ایسا اس لئے ہے کہ الوہیت کے دعوے کو مقدم رکھا گیا ہے“۔ پروفیسر حبیب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اکبر جیسے مسلم حکمراں کے لئے عقیدہ تناسخ کے بارے میں رویہ کھلے ذہن کی حیرت انگیز اور بلند سطح کو ظاہر کرتا ہے“۔

انہوں نے کہا: ”اکبر کے زمانے میں بین المذاہب تعامل سب سے زیادہ اس کے دور میں مکتب خانہ میں وسیع پیمانے پر ہونے والی تصنیفی اور ترجمہ کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے۔

مغل بادشاہ کا سنسکرت ادبیات کے ساتھ پہلا سابقہ اس کے دور حکومت کے اوائل میں ہی ہوگیا، چنانچہ مغل دربار میں ہندو برہمن اور جین مستقل موجود رہتے تھے۔ اس کی ایک خاص کوشش یہ تھی کہ ہندوؤں کے قدیم ترین صحیفوں میں سے ایک اتھروید کا فارسی میں ترجمہ کیا جائے- جس سے ترجمے کی سرگرمیوں کو تقویت ملی اور دو عظیم رزمیہ کتب - مہابھارت اور رامائن کے فارسی تراجم سامنے آئے۔ پروفیسر حبیب نے واضح کیا کہ یوروپ کو اپنشدوں کے بارے میں علم فارسی تراجم سے ہوا جو غیر معمولی طور پر ذہن اور پڑھے لکھے مغل شہزادے دارا شکوہ نے کیا تھا۔

انھوں نے کہا: دارا شکوہ نے اپنشدوں کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا تاکہ انہیں ہندوستان اور دیگر جگہوں کے مذہبی اسکالر پڑھ سکیں۔ ان کی دیگر مشہور تصانیف میں مجمع البحرین شامل ہے جو تصوف اور ویدانت کے فلسفہ کے درمیان وابستگی اور تعلق کے انکشاف کے لئے وقف ہے۔

درحقیقت، مغلوں نے ثقافتی پیش رفت کے لئے ایک بڑی راہ نکالی۔ مغل دور کے مہابھارت اور رامائن کے فارسی ترجمے انگریزوں کو عربوں کے ذریعے ملے جن کے لئے ان کا انگریزی میں ترجمہ کرنا آسان تھا۔ یہاں تک کہ شہنشاہ جہانگیر بھی ویدانت کو ’تصوف کی سائنس‘ سمجھتا تھا۔ سیمینار کے شرکاء کے نام ایک خصوصی پیغام میں اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا: ”مغل بادشاہ اکبر نے مذہبی رواداری اور بین المذاہب علوم کی پالیسی کو اختیار کیا جو اپنے عہد میں پوری دنیا میں ایک منفرد بات تھی۔

ان کے پڑپوتے شہزادہ دارا شکوہ نے پچاس سے زیادہ اپنشدوں کو فارسی میں پیش کر کے ان شاندار فلسفیانہ تحریروں سے غیر ہندوستانی علمی دنیا کو متعارف کرایا، اور اس کے فارسی ترجمے کا لاطینی ترجمہ ہوا۔ اس طرح یہ کتاب یوروپ پہنچی۔

مجھے یقین ہے کہ سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ کی یہ کوشش ہندوستان میں چار سو سال قبل شروع کیے گئے بین المذاہب افہام و تفہیم کے منصوبے کے علم میں خاطر خواہ اضافہ کرے گی، جس سے نہ صرف ماضی کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ ہوگا، بلکہ موجودہ وقت میں بھی باہمی افہام و تفہیم کی فضا بہتر ہو گی“۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر نثار اے خاں (ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنسز) نے کہا کہ مغل بادشاہ اکبر اور ان کے پڑپوتے شہزادہ دارا شکوہ بین المذاہب امن، رواداری، بھائی چارے اور سیکولرازم کے علمبردار تھے۔

انھوں نے کہا ”اکبر اور دارا شکوہ نے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے دور میں مشنریوں اور صوفیاء نے مذہبی منافرت کے خلاف ایک طاقت کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے عوام کے تئیں لبرل اور موافق نظریات کا اطلاق کیا اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ مکمل سماجی اقتصادی اور مذہبی حقوق کے ساتھ ایک مربوط معاشرے میں رہیں“۔

پروفیسر کے اے ایس ایم عشرت عالم نے افتتاحی تقریب میں خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور سیمینار کے موضوع کا تعارف کرایا۔ سیمینار کے پہلے دن پروفیسر سید علی ندیم ریضاوی اور پروفیسر اطہر علی خان نے بالترتیب پہلے اور دوسرے سیشن کی صدارت کی۔ پروفیسر شیریں موسوی (اے ایم یو) نے ’ہندومت، عقائد و نظریات کے تئیں اکبر کارجحان‘، پروفیسر فرحت حسن (دہلی یونیورسٹی) نے ’مغل دور میں قانونی مقامات پر انٹر کمیونٹی روابط‘، پروفیسر فرحت نسرین (شعبہ تاریخ و ثقافت، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’دوئیت کے پس منظر میں برہما وائیورت پُران اور مجمع البحرین‘، اور پروفیسر سید علی ندیم ریضاوی (اے ایم یو) نے ’دیگر کی تصویر کشی: مغلوں کے دور میں تکثیری روایات کے رجسٹر کے طور پر دیواریں‘ موضوع پر اظہار خیال کیا۔

پروفیسر یوجینیا وینینا (انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز، رشین اکیڈمی آف سائنسز، سینٹر فار انڈین اسٹڈیز)، پروفیسر جگر محمد (جموں یونیورسٹی)، ڈاکٹر منیشا ایس اگنی ہوتری (جانکی دیوی میموریل کالج، دہلی یونیورسٹی)، پروفیسر سنجے گرگ (نیشنل آرکائیوز، نئی دہلی)، ڈاکٹر دیبراج چکرورتی اور پروفیسر امیت ڈے (کلکتہ یونیورسٹی) 15/ مارچ کوخطبہ دیں گے۔

اس سیشن کی صدارت پروفیسر فرحت حسن اور پروفیسر عشرت عالم کریں گے۔ 16/مارچ کے سیشن کے مقررین میں ڈاکٹر سیف الدین احمد (شعبہ تاریخ، دہلی یونیورسٹی)، پروفیسر ایس جابر رضا (شعبہ تاریخ، اے ایم یو)، پروفیسر سید اعجاز حسین (شعبہ تاریخ، وشو ا بھارتی یونیورسٹی، شانتی کیتن، مغربی بنگال)، پروفیسر حسن امام (اے ایم یو)، ڈاکٹر ریاض احمد خان (اے ایم یو)، پروفیسر ایم وسیم راجہ (اے ایم یو)، ڈاکٹر طاہر حسین انصاری (اے ایم یو)، ڈاکٹر طارق انور (دہلی یونیورسٹی)، ڈاکٹر روحمہ جاوید رشید (جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)، محمد رحمت اللہ (جامعہ ملیہ اسلامیہ)، پروفیسر سنجے سبودھ، ڈاکٹر اجیشا سی، پروفیسر شالن جین (شعبہ تاریخ، دہلی یونیورسٹی)، پروفیسر عشرت عالم (اے ایم یو)، ڈاکٹر رشمی اپادھیائے (اے ایم یو)، ڈاکٹر نذیر عزیز انجم (اے ایم یو)، ڈاکٹر محمد ظفر منہاج (اے ایم یو)، ڈاکٹر محمد ریحان غنی (اے ایم یو) ڈاکٹر صہیب قیوم (اے ایم یو) اور ڈاکٹر سیف اللہ سیفی (اے ایم یو) شامل ہیں۔ پروفیسر ایم کے پندھیر، پروفیسر پرویز نذیر، پروفیسر محمد پرویز اور پروفیسر ایم وسیم راجہ سیشن کی صدارت کریں گے۔ افتتاحی تقریب میں ڈاکٹر سنبل حلیم خاں نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔