نیو دہلی : پروفیسر شمس الحق عثمانی کا انتقال افسانوی ادب کے ممتاز نقاد اور منٹو شناس کو نم آنکھوں سے کہاگیا الوداع 22۔اپریل 2025 اردو کے ممتاز افسانوی نقاد اور منٹو و بیدی کے ادا شناس پروفیسر شمس الحق عثمانی کا آج (/22اپریل۔2025)دوپہر میں انتقال ہوگیا۔ان کی تدفین دلی گیٹ قبرستان میں ہوئی جہاں ان کے احباب، شاگردوں اور ان سے محبت کرنے والوں نے نم آنکھوں کے ساتھ انھیں الوداع کہا۔
پروفیسر عثمانی شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اکتوبر 1989میں وابستہ ہوئے تھے اور فروری 2013میں وظیفہ یاب ہوئے۔شعبہ کی مختلف ذمہ داریاں انھوں نے انجام دیں۔بطور صدر شعبہ بھی انھوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔شعبہ کے اہم اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔فکشن مطالعات ان کا خاص میدان تھا۔ چند روز پہلے وہ بیمارہوئے تو انھیں ہاسپٹل لایا گیا مگر علاج کارگرنہ ہوسکا اور آج وہ دوپہر میں عالم فانی سے کوچ کرگئے۔پس ماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور بیٹی ہیں۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی 15فروری 1948کو دیوبند سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ابھی چار برس کے تھے کہ والد کے ساتھ دلی آگئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔انھوں نے اینگلو عربک ہائر سکینڈری اسکول سے ہائر سکینڈری کی تعلیم مکمل کی۔ذاکر حسین کالج سے بی اے کیا۔ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو سے حاصل کی۔راجیندر سنگھ بیدی کی شخصیت اور فن پر انھوں نے ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا جو بیدی نامہ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوکر مقبول ہوا۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی کا شمار اردو کے اہم قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ان کے قلم سے دودرجن سے زائد کتابیں نکلیں۔ترتیب وتدوین کے ساتھ ساتھ ان کے مضامین کے متعدد مجموعے جن میں دراصل،درحقیقت،فسانہ و شعر کا بلاوا،غالب اور منٹو،شامل ہیں مقبول ہوئے۔ابو الفصل صدیقی شخص اور فن کی تفہیم،باقیات بیدی اور آئنوں کی نگری ان کے افسانوی پرکھ کی آئینہ دار کہی جاسکتی ہیں۔رسالہ جامعہ کی ستر سالہ تحریروں کا چار جلدوں میں انتخاب بھی انھوں نے کیا۔پورا منٹو دراصل یہ منٹو کی کلیات ہے جس کی چار جلدیں اکسفورڈ پریس کراچی سے شائع ہوچکی ہیں مزید منتظر اشاعت ہیں۔نظیر اکبرآبادی سے متعلق تمام تحریروں کو انھوں نے دوجلدوں میں نہایت سلیقہ کے ساتھ مرتب کرکے ”نظیر فہمی“کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں جہاں ان کی متعدد کتابوں کو ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا وہیں غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے ان کی مجموعی ادبی خدمات پر غالب انعام(2014)سے سرفراز کیا تھا۔دلی اردو اکیڈمی نے ان کی تنقیدی خدمات کے اعتراف میں انھیں ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا۔ آج کا دن ان کے بے شمار شاگردوں کے لیے نہایت رنج اور غم کا دن ہے۔