وزیراعظم مینٹور شپ اسکیم:نوجوان قلمکاروں کے لئے اسکالرشپ مختص

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-07-2021
وزیراعظم مینٹر شپ اسکیم
وزیراعظم مینٹر شپ اسکیم

 

 

آواز دی وائس ۔نئی دہلی 

سرکاری سطح پراردو کو نظر انداز کئے جانے کا رونا ہر کوئی روتا ہے،ہر کسی کی الگ الگ شکایتیں ہوتی ہیں ۔مگر سرکاری سطح پر اردو کے نام پر اگر کچھ ہو رہا ہے تو اس کی جانب کسی کی توجہ نہیں ہوتی ہے۔ ایسی معلومات یا تو ہوتی ہی نہیں ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو اس کو آپس میں شیئر نہیں کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک اسکیم نیشنل بک ٹرسٹ کی سامنے آئی ہے لیکن اردو والے اب بھی سو رہے ہیں۔اس اسکیم کی اہمیت اور اردو والوں کی بے حسی کے بارے میں  ممتاز صحافی اور دانشور زین شمسی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی ہے۔جس کو قارئیں کی دلچسپی کے لئے پیش کیا جارہا ہے ۔

تین لاکھ کی رقم ایک طالب علم کے لئے بہت اہمیت بھی رکھتی ہے، اوریہ اسکیم ان کے مستقبل کو روشن بھی کر سکتی ہے۔ بات صرف پیسوں کی ہوتی تو میں ایسی اسکیموں پر دھیان نہیں دیتا، لیکن یہ اردو کے وقار اور اردو کی بقا دونوں کا سوال ہے۔

جیسا کہ آپ سب دانشوران کو معلوم ہے کہ ہندوستان کی 22 سرکاری زبانوں میں اردو زبان مسلسل اپنے معیاری پائدان سے نیچے کی طرف کھسکتی جارہی ہے۔ اس کی وجوہات پر بحث کا یہ موقع نہیں ہے، مگر ایسے معاملے سے اس طرح کی اسکیموں کا براہ راست واسطہ ضرور ہے۔

جب بھی کسی سرکاری ادارے سے اس طرح کی اسکیم کا اعلان ہوتا ہے تو ہم اردو والے اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے، ہندی، بنگلہ، پنجابی، تیلگو اور انگریزی کے طلبا و اساتذہ بہت تیزی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب سرکار مضامین اور پروجکٹ کو شمار کرتی ہے تو اس میں اردو کی انٹری ہی نہیں ہو پاتی، نتیجے میں کلچر منسٹری یا ایچ آر ڈی منسٹری میں اردو کا بجٹ کم کر دیا جاتا ہے اور یہ مسلسل ہورہا ہے۔ اس کے بعد ہم سرکار کو منہ بھر کر گالیاں دیتے ہیں اور اس کے خلاف مضامین لکھ کر تعریفیں بٹور لیتے ہیں۔

 یہ اسکیم جس کا ذکر میں نے کیا ہے، یہ صرف اردو کے تعلق سے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی عظمت و وقار کے حوالے سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اس اسکیم میں جو موضوعات درج ہیں اس میں تحریک آزادی، مجاہدین آزادی اور بھارت کی تعمیر و ترقی میں ایسی شخصیات کا رول جسے تاریخ کے پنوں اور سیاست کے دھروں نے کوئی اہمیت نہیں دی، اسے سامنے لانے کا سنہرا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے ناولٹ اور طویل افسانے بھی اس اسکیم کے تحت جمع کرائے جاسکتے ہیں، جس کا پلاٹ جدوجہد آزادی رہا ہو۔

تحریک آزادی میں علمائے کرام کا حصہ

 تحریک آزادی میں اردوصحافت کا رول، تحریک آزادی میں مسلمانوں کی شہادت

 جدوجہد آزادی کے مسلم مجاہدین

مجاہدین آزادی کی نجی زندگی اور اس کا ان کے خاندان پر اثر

مجاہدین آزادی کا مقصد

آزادی ہند اور تقسیم ہند کے مسلمانوں پر اثرات اور مجاہدین آزادی کے حصول آزادی کا خواب

یہ اور ایسے بے شمار موضوعات ہیں، جس پر اردو والوں سے زیادہ کسی کے پاس کہنے کو کو زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ یہی نہیں آزادی کے بعد بھی بھارت پر مر مٹنے والے کئ مسلم شہدائے وطن ہیں، جس مہں کیپٹن عبدالحمید جیسی کئ شخصیات ہیں، جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ یہ اسکیم ایک بار پھر مسلمانوں کی عظمت و وقار کو بحال کرنے کا موقع دیتا ہے۔

awazurdu

ابھی جس صورتحال سے ہم لوگ گزر رہے ہیں اس سے تمام ذی شعور افراد واقف ہیں کہ کیسے تعلیمی میدان میں نصاب میں تبدیلی ہو رہی ہے۔ کیسے تاریخی حقائق تبدیل کئے جا رہے ہیں، کیسے اردو زبان کا رابطہ عوام سے کاٹنے کی سبیل اختیار کی جا رہی ہیں، کیسی کہسی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں اگر این بی ٹی آپ کو اپنی تاریخی وراثت کو جمع کرانے کا موقع دے رہا ہے تو پھر اسے سنجیدگی سے مفکر قوم و ملت کیوں نہیں لے رہے ہیں۔ کیوں نہیں پروفیسر و اساتذہ کرام اپنے طلبا کو ترغیب دے رہے ہیں کہ آپ اپنے مضامین این بی ٹی کو بھیجیں۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اس اسکیم کی تشہیر ہوئے 10 دن گزر چکے ہیں اور اب تک ایک بھی مضمون این بی ٹی کو اردو طلبا و نوجوانوں کی طرف سے دستیاب نہیں ہوئے ہیں، وہیں انگریزی، ہندی ، بنگلہ۔ تیلگو، تمل کے نوجوان رائٹرس مسلسل اپنے مضامین بھیج رہے ہیں.مجھے جب یہ پتہ چلا کہ اب تک اردو کی ایک بھہ انٹری نہیں ہوئی ہے تو مجھے یہ احساس ہوا کہ اردو والوں کی حس ختم ہو گئی ہے یا پھر نہ انہیں پیسوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی عظمت رفتہ اسے کچوکے لگاتی ہے۔

 اسکیم 31جولائی کو ختم ہو جائے گی اور ساتھ ہی ایک اچھا موقع بھی۔ زین شمسی