پاکستان:پہلامخنثوں کا مدرسہ اور اس کی بانی رانی خان

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 30-06-2021
ایک طالبہ کوقرآن پڑھاتے ہوئے رانی خان
ایک طالبہ کوقرآن پڑھاتے ہوئے رانی خان

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

اسلام آباد

تیسری صنف سے تعلق رکھنے والے بھی ہماری طرح ہی انسان ہیں مگر پاکستان میں انھیں انسان نہیں سمجھا جاتاہے،سماج نفرت کرتاہے اور برابری کامقام دینے کو تیار نہیں۔ اس برادری کے لوگ آج بھی عزت ووقارکی زندگی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ رانی کی کہانی بھی جدوجہدسے ہی عبارت ہے۔انھوں نے روزگار کے لئے ناچ،گانے کئے، تالیاں پیٹ پیٹ کرلوگوں کو ہنسایا۔یہی نہیں بھیک بھی مانگامگراب انھوں نے بیڑااٹھارکھا ہے کہ اپنی برادری کو معاشرے میں عزت کا مقام دلائیںگی۔اب کسی مخنث کوپیٹ کی آگ بجھانے کے لئے جسم فروشی نہیں کرنے دینگی۔اب کسی ٹرانسجنڈرکوناچنے،گانے اور تالیاں پیٹ کرلوگوں کی دلبستگی کا سامان نہیں بننے دیں گی۔اسی جذبے کے ساتھ انھوں نے ٹرانسجنڈرس کے لئے دوسال قبل ایک مدرسہ کھولا ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا ٹرانسجنڈراسکول ہے۔

جدوجہدکی داستان

مدرسے میں تعلیم حاصل کرتی اسٹوڈنٹس

رانی خان خودبھی اپنے مدرسے میں پڑھاتی ہیں۔وہ اپنے سر پر ایک لمبی سفید شال ڈالے، روزانہ قرآن پاک کا درس دیتی ہیں۔مدرسے میں کڑھائی،بنائی بھی سکھائی جاتی ہے تاکہ ٹرانسجنڈرس کے پاس بھی ہنر ہواور انھیں روزگار کے لئے وہ سب نہ کرناپڑے جو کچھ کرناپڑتا ہے۔ رانی خان نے اپنی پوری زندگی کی بچت سے مدرسہ کھولاہے۔ظاہر ہے کہ یہ مدرسہ ،مخنث برادری کے لئے ایک اہم سنگ میل ہے۔حالانکہ ان پر دینی مدارس میں تعلیم لینے یا مساجد میں نماز پڑھنے پر سرکاری پابندی نہیں ہے مگر معاشرہ انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔بیشتر کنبے انھیں قبول نہیں کرتے ہیں۔ وہ انہیں گھروں سے باہر پھینک دیتے ہیں۔رانی خان کوبھی 13 سال کی عمر میں ان کے اہل خانہ نے بے دخل کردیا تھااور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوئیں۔

دین سے قربت

سترہ سال کی عمر میں ، وہ ایک ٹرانسجینڈر گروپ میں شامل ہوگئیں اور شادیوں میں ناچ گاکر کمائی کرنے لگیں۔فی الحال ان کی عمرپینتیس سال کے قریب ہے۔انھوں نے خودکو اسلام سے جوڑنے کے لئے اس پیشے کو چھوڑ دیااور اپنے جیسوں کی مدد کے لئے گذشتہ سال اکتوبر میں دو کمروں والا مدرسہ کھول لیا۔انھوں نے بچپن میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی ، اور دینی مدرسے میں پڑھاتھا۔ رانی خان نے کہا ، میں خدا کو راضی کرنے ، اپنی زندگی کو دنیا اور آخرت میں بہترکرنے کی غرض سے قرآن کی تعلیم دیتی ہوں۔اسی کے ساتھ رانی کا مقصد تیسری صنف کو یہ سمجھاناہے کہ اسلام کیاہے؟اللہ کی عبادت کیسے کی جائے اورگذشتہ برےاعمال سے توبہ کی جائے۔

حکومت سے مددنہیں ملی

رانی خان کو شکایت ہے کہ ان کے مدرسے کو حکومت کی طرف سے امداد نہیں ملی ہے۔ حالانکہ سرکاری عہدیداروں نے طلبا کو ملازمت کی تلاش میں مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اسٹوڈنٹس سے سلائی ،کڑھائی کرائی جاتی ہے تاکہ کپڑے بیچ کر مدرسے کا خرچ چلایا جاسکے۔ دوسری طرف اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت نے بتایا کہ مدرسہ، تیسری صنف کے افراد کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔انہوں مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ اگر آپ دوسرے شہروں میں بھی اس ماڈل کو اپنائیں تو معاملات میں بہتری آئے گی۔” واضح ہوکہ پاکستان کی 2017 کی مردم شماری میں 10،000 ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد ریکارڈ کی گئی تھی ، حالانکہ ٹرانس رائٹس گروپس کا کہنا ہے کہ یہ تعدادلاکھوں میں ہے۔

دل کا سکون

مدرسہ کی ایک طالبہ سمیر خان نے کہا ، جب میں قرآن پڑھتی ہوں تو اس سے میرے دل کو سکون ملتا ہے۔سمیرخان زندگی کی مہارتیں سیکھنے کی خواہشمند ہیں۔اس انیس سالہ طالبہ نے مزید کہاکہ توہین سے بھری زندگی سے کہیں بہتر ہے،یہ زندگی۔

تعلیم کے ساتھ راشن

رانی کے مطابق انھیں مدرسہ قائم کرنے اور اسٹوڈنٹس کو لانے میں خاصی دقت آئی۔اس مدرسہ کے لئے کوئی بھی گھر کرائے پر دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔بہت مشکل سے اسلام آباد کے ایک نواحی علاقے میں گھرمل پایا۔ رانی خان کہتی ہیں کہ انھیں ٹرانسجنڈرس کو مدرسے میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے لانے میں بہت جدوجہد کرنا پڑی۔شروع میں کوئی بھی مدرسے میں آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔‘ انھوں نے اسٹوڈنٹس کو اس جانب راغب کرنے کے لیے پیشکش کی کہ جوبھی مخنث آئیں گے انھیں ماہانہ بنیادوں پر راشن دیا جائے گا۔اس کا اثر ہواورچالیس کے قریب اسٹوڈنٹس آئے مگرکچھ دن میں نصف بھاگ گئے۔ رانی کا کہنا ہے کہ اب جتنے بھی اسٹوڈنٹس اُن کے مدرسے میں آتے ہیں اُن کو ماہانہ راشن دیا جاتا ہے اور اخراجات وہ خود برداشت کرتی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ سب کو ماہانہ بنیادوں پر میک اپ کا سامان بھی دیا جاتا ہے۔