مشعل راہ : کولکاتا کی کچی آبادی میں تعلیم کی شمع روشن کرنے والے مامون

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-06-2021
 مامون اختر نے جدوجہد کی ایک مثال رقم کی ہے
مامون اختر نے جدوجہد کی ایک مثال رقم کی ہے

 



 

حنا احمد: کولکاتا

یوں تو یہ ایک معروف حکایت ہے کہ تعلیم معاشرے میں ایک بنیادی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتی ہے لیکن اگر صورتحال ابتر ہو اور  وسائل  دستیاب نہ ہوں تو تعلیم کے حوالے سے بڑی بڑی باتیں افسانوی معلوم ہوتی ہیں ۔ ان سب کے باوجود مشکل حالات کے عوامل کو بے محل ثابت  کرتے ہوئے مامون اختر نے جدوجہد کی ایک مثال رقم کی ہے - ان کو یقین ہے کہ معاشرے  کےمحروم ترین طبقے کے بچوں کو بھی حق ہے کہ ان کا مستقبل روشن ہو ۔

وہ ہاؤڑہ (مغربی بنگال) کی ایک دور تک پھیلی ہوئی کچی آبادی تکیہ پورہ میں پچھلی تین دہائیوں سے اسکول چلا کر ایک تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اسکول میں تقریبا 6500طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں - ان تمام بچوں کے والدین ناخواندہ ہیں۔

اختر بتاتے ہے کہ ان کے والد سول کنٹریکٹر تھے اور گھر کے حالات ابتر ہونے کے بعد اختر کو وہاں سے جانا پڑا۔ اختر نے ہار نہیں مانی اور باضابطہ طور پر بارہویں جماعت تک کی تعلیم جاری رکھی پھر ان کے والد کی وفات ہوگئی اور حالت مزید خراب ہو گیۓ ۔

بہر حال اختر کے شوق نے محرومی پر قابو پانے میں ان کی مدد کی اور تعلیم سے محبت کی وجہ سے انہوں نے 1991 میں 5-6 بچوں کو اپنے ہی گھر میں پڑھانا شروع کیا ۔ بعد میں مزید بچے آنا شروع ہوگئے جس کی وجہ سے مامون نے اپنے گھر میں ایک بڑا سا کمرا اس مقصد کے لئے تعمیر کیا۔ اور اس طرح سمریٹن ہیلپ مشن اسکول کا آغاز ہوا جو شروعات میں صرف 25 طلباء پر مشتمل تھا۔

اختر نے مزید کہا ، "میں اسکول کے لئے پیسہ اکٹھا کرنے گھر گھر جاتا تھا ، اگرچہ غریب والدین کے لئے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بہت ہی مشکل چیلنج تھا لیکن ہمارا مشن مستقل مزاجی کے ساتھ ترقی کرتا گیا ۔

طلباء کے والدین رکشہ چلانے والے مزدور تھے اور کچھ اس سے بھی زیادہ نادار - اختر کو والدین کو راضی کرکے انہیں ایک با عزت زندگی کی جانب پیش قدمی کے لئے ترغیب دینی پڑی ۔ چونکہ بہت سارے بچے معاشرتی خرابی سے دوچار خاندانوں سے آتے ہیں اسلئے طلباء کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ اسکول متعدد وجوہات کی بناء پر در گزر کئے گیۓ محروم بچوں کے لئے کھلا ہے۔

اسکول کا ایک بار کولکاتا میں امریکی قونصل خانے میں موجود ایک عملے کی بیوی لی ایلیسن سیبی نے دورہ کیا جس کے بعد اس کے حالات بدل گیۓ ۔ انہوں نے مالی معاونت فراہم کی اور ایک مقامی صحافی دوست کو اس بات پر راضی کیا اختر کی مخیر کاوشوں پر لکھے اور عوام کو بتایے کہ کس طرح انہوں نے نادار طبقے کے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کی بنیاد رکھی ہے ۔

سن 2007 میں سامریٹن مشن اسکول کو مغربی بنگال حکومت کی طرف سے منظوری مل گئی ۔ آج یہ ایک انگریزی میڈیم اسکول ہے ، جو ریاستی بورڈ سے وابستہ سیکنڈری ایجوکیشن کی تعلیم دیتا ہے۔

اسکول کی سالانہ فیس محض پانچ روپے ہے کیونکہ مامون کا خیال ہے کہ لوگ مفت میں ملی کسی بھی چیز کی قدر نہیں کرتے ۔ اسکول کو چلانے کے لئے فنڈز مامون کی بچت اور نجی ڈونرز کی امداد سے ملتے ہیں۔ اسکول میں مزید توسیع ہوئی ہے اور ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے جو برسوں پہلے کچرے کا ڈھیر تھی ۔ ہاوڑہ سٹی پولیس اور ہاؤڑہ میونسپل کارپوریشن کی مدد سے اسکول کے اطراف میں موجود تجاوزات کو ہٹایا گیا ۔ چنانچہ اب گھر چھوڑنےوالے نوعمر بچوں یا ٹوٹے ہوئے گھروں کے مفلوک الحال معصوموں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کے لئے زیادہ جگہ مل گئی۔

جامع تعلیم کا گہوارہ متعدد دیگر مضامین کے علاوہ یہاں روزمرہ کی زندگی میں کام آنے والی بنیادی مہارتوں جیسے لکڑی کا کام ، پلمبنگ، سلائی ، کڑھائی وغیرہ پر ورکشاپس بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ اسکول کا مقصد ایک پر اعتماد شہری کی تشکیل ہے جو محسوس کرے کہ ان کا تعلق اسی معاشرے سے ہے۔ اس علاقے میں کسی بھی دوسرے انگلش میڈیم اسکول میں بچوں کو بھیجنا 10 گنا زیادہ مہنگا پڑتا ہے ۔ یہ ایک محفوظ پناہ گاہ ہے جہاں مذہب یا مالی حیثیت کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں ہوتا ہے ۔