وہ جو شمس تھا سرآسماں‘ اور ’سیمانچل کے افسانہ نگار'کا اجراء

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-11-2021
وہ جو شمس تھا سرآسماں‘ اور ’سیمانچل کے افسانہ نگار'کا اجراء
وہ جو شمس تھا سرآسماں‘ اور ’سیمانچل کے افسانہ نگار'کا اجراء

 

 

نئی دہلی: اردو کے معروف صحافی ڈاکٹر عبدالقادر شمس پر کتاب ’وہ جو شمس تھا سرآسماں‘ اورمشہور افسانہ نگار احسان قاسمی کی کتاب ’سیمانچل کے افسانہ نگار‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامیات کے سابق ڈین پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ عبدالقادر شمس سوتے دہلی میں تھے مگر خواب وہ سیمانچل کا دیکھتے تھے یہ بات انہوں نے ادارہ ادب اسلامی، حلقہ دہلی بہ اشتراک فورم فور انٹیکچول ڈسکورس کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں دونوں کتابوں کا رسم اجراء انجام دیتے ہوئے کہی۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ عبدالقادر وہ ایسے صحافی تھے جنہوں نے رزق حلال دنیا سے حاصل کیا لیکن زندگی دین کی سربلندی کے لئے وقف کیا۔انہوں نے کہاکہ ان کی کمی زندگی میں ہمیشہ محسوس کروں گا۔ انہوں نے احسان قاسمی کی کتاب ’سیمانچل کے افسانہ نگار‘پر اظہار خیا ل کرتے ہوئے کہا کہ جہاں اس کتاب سے سیمانچل کی شناخت کو نمایاں کرنے میں مدد ملے گی وہ ہم عصروں کو اس کتاب سے تحریک ملے گی۔ انہوں نے مزید کہاکہ انہوں نے اپنی کتاب میں اپنے ہم عصروں کی خدمات کا ذکر کرنے سے کسی طرح کے بخل سے کام نہیں لیا ہے اس کی سائش کی جانی چاہئے۔

 مشہور افسانہ نگار اور این سی ای آر ٹی کے ایڈیٹر ڈاکٹر پرویز شہریار نے کہاکہ عبدالقادر شمس کو بہترین انسان دوست قرار دیتے ہوئے کہاکہ اگر انسان میں انسان دوستی نہیں ہے تو اسے کبھی بھی اچھی نظر نہیں دیکھا جائے گا۔ سیمانچل کے افسانہ نگار پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے اسے ادب میں ایک اضافہ قرار دیا اور کہاکہ اردو افسانہ کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس کتاب کا نام ضرور آئے گا۔انہوں نے کہاکہ احسان قاسمی بہت اہم کام انجام دیا ہے اس کی قدر کی جانی چاہئے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ یہ ادب کی شناخت کسی علاقائی نسبت نہیں بلکہ فنی خوبیوں کی جاتی ہے اور یہ کتاب پذیرائی حاصل کرے گی۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ابوبکر عباد نے سیمانچل کے افسانہ نگار کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہ سیمانچل کے ادیبوں کو تعارف کرانے میں یہ کتاب اہم رول ادا کرے گی خاص طور پر ان دیبوں کو جنہیں حاشیائی ادیب سمجھ کر اب تک نظر انداز کیا جارہا تھا۔ انہوں نے کہاکہ صرف اس بات پر گفتگو نہیں ہونی چاہئے کہ یہ علاقائی ادب یا مخصوص علاقے کے لکھنے والے ہیں بلکہ ضرورت اس بات کی فنی خصوصیات کی پذیرائی ہونی چاہئے۔انہوں نے کہاکہ فن اور فنکار کسی علاقے میں قید نہیں ہوتے اور نہ ہی اسے کسی علاقے تک محدود یا کسی خانے میں فٹ کیا جاسکتا ہے۔

مشہور نقاد اورادیب حقانی القاسمی نے عبدالقادر شمس کو َخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کتاب ’وہ جو شمس تھا سرآسماں‘ کے بارے میں کہا کہ یہ صرف تحریروں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ان تحریروں میں آنسو جذب ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایسی تحریریں دماغ سے نہیں دل سے لکھی جاتی ہیں۔ ان کا سب سے خلوص اور محبت کا رشتہ رتھا۔ یوجنا کے مدیر عبدالمنان نے سیمانچل کے افسانہ نگار کے حوالے سے گفتتگو کرتے ہوئے احسان قاسمی کی شخصیت کو سیمانچل کے لئے غنیمت قرار دیا اور کہاکہ انہوں نے کہاکہ انہوں نے سیمانچل ادب کا گہوارہ کے نام سے فیس بک پر کالم لکھنا شروع کیا۔ انہوں نے کہاکہ ان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نئے قلم کاروں کو بھی اس میں جگہ دی ہے اور ان کا تعارف کرایا ہے۔ انہوں نے سیمانچل کے ادیبوں کی کمی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ ہمیشہ نام و نمود سے بھاگتے رہے جس کی وجہ سے ادب میں وہ تعارف نہیں ہوپایا اور اس کے سبب ادبی دنیا میں وہ جگہ نہیں ملی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشر نے ڈاکٹر عبدالقادر شمس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ وہ قلم کے دھنی تھے۔ مشہور افسانہ نگار اورسیمانچل کے افسانہ نگار کے مصنف احسان قاسمی نے اس موقع پر کہاکہ سیمانچل ایک جغرافیائی حلقہ ہے جہاں ملی جلی تہذیب اور زبان ہے۔وہاں اردو زبان نہ ہوتے ہوئے بھی ادب کے لحاظ سے ایک مردم خیز خطہ ہے۔ جہاں ہر طرح کی ادب کی تخلیق کی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے ابھارا اور سراہا جائے۔

انہوں نے کہاکہ پھرنیشور ناتھ رینو نے بھی علاقائی ادب تخلیق کی لیکن اس ادب کو عالمگیر شہرت ملی۔ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر احمد علی جوہر نے سیمانچل کے افسانہ نگار کا بھرپور جائزہ لیا۔ اس کے علاوہ صحافیوں میں زین شمسی، سرج نقوی،ڈاکٹر وارث مظہری، ڈاکٹر جسیم الدین نے بھی عبدالقادر شمس کی شخصیت پر اظہار خیال کیا۔ جب کہ جے این یو اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اجمل قاسمی نے استقبالیہ کلمات ادا کئے، منظر امام نے نظامت کے فرائض انجام دئے اور یو این آئی کے صحافی عابد انور نے اظہار تشکر کیا