زبان تہذیبی رشتوں کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے:پروفیسر ای وایو نندن

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-02-2022
زبان تہذیبی رشتوں کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے:پروفیسر ای وایو نندن
زبان تہذیبی رشتوں کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے:پروفیسر ای وایو نندن

 

 

آواز دی وائس، ناسک 

مجھے اس بات پر بے حد خوشی ہے کہ اردو سے ہم سب کا نہ صرف گہرا بلکہ جذباتی لگاؤ ہے یونی ورسٹی میں بی اے اور ایم اردو پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے اس زبان کو سیکھنے اور جاننے والوں کی تعداد میں اضافہ کی وجہ سے جو محبتیں مجھے مل رہی ہیں وہ میری زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔

ان خیالات کا اظہاریشونت راؤ چوہان مہاراشٹر اوپن یونی ورسٹی ناسک کے وائس چانسلر پروفیسر ای وایو نندن نے ’اردو کا دیگر ہندستانی زبانوں سے ادبی،لسانی و تہذیبی رشتہ‘کے موضوع پر اسکول آف ہیومنٹیز اینڈ سوشل سائنسز، یشونت راؤ چوہان مہاراشٹر اوپن یونی ورسٹی کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے منعقددوروزہ قومی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں صدارتی خطاب کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ز بانوں کی کثرت نے ہمیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع فرہم کیا ہے۔تہذیبی رشتوں کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ زبان ہے۔

کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو اور ڈین پروفیسر نسیم الدین فریس نے کہا کہ ہر زندہ زبان اپنے ارتقا کے کسی نہ کسی مرحلے میں دوسری زبان سے اخذ و استفادہ کرتی ہے۔ایک زندہ زبان کے طو رپر اردو نے اپنے ارتقائی دور میں کئی زبانوں کے اثرات قبول کیے۔

پروفیسر نسیم الدین فریس نے اردو کے ادبی،لسانی اور تہذیبی رشتوں کے انسلاک پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دیگر زبانوں سے اردو کے رشتے مختلف سماجی اور سیاسی عوامل کے سبب تاریخی اور تمدنی ضرورت کے طور پر قدیم ز مانے سے قائم ہیں۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ نئی نسل کو ان رشتوں کی موجودگی اور معنویت کا احساس دلانا بہت ضروری ہے۔

انھوں نے اردو کی قدیم شعری ونثری تخلیقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان پر علاقائی ز بانوں کے گہرے اثرات ہیں۔انھوں نے بتایا کہ سنسکرت کے تتسم الفاظ کے ساتھ ساتھ پراکرت کی تدبھو صورتوں کے بغیر اردو الفاظ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

انھوں نے کہاکہ تلگو،کنڑ،پنجانی اور دیگر علاقائی زبانوں کے الفاظ کی وجہ سے اردو ایک نہایت سیال اور لچیلی زبان کی نہ صرف حیثیت رکھتی ہے بلکہ اسے ایک آزاد منش اور ملنسار زبان بھی کہا جاتا ہے۔نسیم الدین فریس نے کہا کہ زبانوں کا یہ لین دین کبھی بھی یک طرفہ نہیں ہوتا۔

انھوں نے بتایا کہ جدید ہند آریائی زبانوں میں فارسی الفاظ اردوکے توسط سے داخل ہوئے۔دوہا،ماہیہ اور دیگر شعری اصناف اردو نے ہندستانی زبانوں سے قبول حاصل کیں۔اسی طرح موسیقی کی دیگر ہیئتیں اور عوامی گیت بھی اردو نے ہندستانی زبانوں سے اخذکیے۔

انھوں نے کہا کہ ہر عہد کا ادب اپنے علاقے کی ثقافت کو بھی متشکل کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ باغ وبہار کے ساتھ دلی کی تہذیب،امراؤجان کے ساتھ لکھنؤ کی ثقافت کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔پریم چند،علی عباس حسینی کے افسانے اتر پردیش کی دیہاتی زندگی کے پس منظر کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔

پروفیسر نسیم الدین نے کلیدی خطبہ میں بتایا کہ تراجم کے ذریعے بھی دوسری زبانوں کے اثرات قبول کیے جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ دیگر ثقافتوں کے احترام کا جذبہ بھی نمو پاتا ہے۔ مہمان اعزازی پروفیسر زماں آزردہ نے کہا کہ ز بان تہذیب اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

انھوں نے معاشرے میں رائج انسانی رویوں اور ان کے جذبہ احترام میں ادا کیے جانے والے الفاظ کے حوالے سے کہا کہ زبان کا یہی کارنامہ انسانیت کے لیے باعث تکریم ہوتا ہے۔مہمان خصوصی کے طو ر پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ اردو شاعری سے دیگر ز بانوں کے رشتے کا سب سے اہم پہلو سنسکرت شعریات کے عناصر بھی ہیں جنھیں اردو نے قبول کیا ہے۔

انھوں نے ایہا م گوئی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سنسکرت میں ایہام کی کثیر مثالیں ہیں جس کا اثر اردو شاعری پر پڑا ہے، ایہام گوئی کا دورجس کی نمایاں مثال ہے۔ سمینارمیں صدر شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر احمد محفوظ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور پروفیسرمحمد زماں آزردہ مہمان اعزازی نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت کی۔اسکول کے انچارج ڈائریکٹر ڈاکٹر پروین گھوڑیسور نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور اردو سے اپنی گہری محبت کا اظہار کیا۔

اردو کے ایسوسی ایٹ کوارڈی نیٹر ڈاکٹر رشید اشرف خاں نے سمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹر شیخ اصغر نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عمیر منظر نے بخوبی انجام دیے۔اس موقع پر یونی ورسٹی کے مختلف شعبوں کے کوارڈی نیٹر، اساتذہ کرام اور ناسک شہر کے ادب دوست موجود تھے۔