غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام عالمی مشاعرے کا انعقاد

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-03-2022
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام عالمی مشاعرے کا انعقاد
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام عالمی مشاعرے کا انعقاد

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیراہتمام منعقدہ بین الاقوامی غالب سمینار کے موقع پر عالمی مشاعرے کا بھی انعقاد عمل میں آیا،مشاعرے کا باضابطہ آغاز شمع روشن کرکے کیا گیا اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے صدر مشاعرہ اور مہمانوں کو گلدستہ پیش کرکے والہانہ استقبال کیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر ادریس احمد نے خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں ایمانداری اور لگن کے ساتھ غالب انسٹی ٹیوٹ کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہوں، میں تمام حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ غالب انسٹی ٹیوٹ تشریف لائیں، لائبریری کا معائنہ کریں، یہاں کے تعلق سے آپ کی جو بھی ضروریات ہوں گی، میں انھیں پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔

ڈائریکٹر ادریس احمد نے مزید بتایا کہ یہاں کی مطبوعات میں گیارہ کتابوں کا اضافہ ہوا ہے اور غالب انسٹی ٹیوٹ کا کلینڈر بھی شائع کیا گیا ہے، جس میں ان بعض ادیبوں کی تصاویر شائع کی گئی ہیں جو کورونا کی وبا کے دوران ہم سے رخصت ہوگئے۔

awazthevoice

شمع جلاتے ہوئے شعراکرام

مشاعرے میں کورونا اصول وضوابط کا بھی خاص خیال رکھا گیا۔ مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر نریش نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض معین شاداب نے انجام دیے۔قارئین کے ذوق وشوق کی تسکین کے لیے نمونہ کلام پیش خدمت ہیں:

جوتے سیدھے کردیے تھے اک دن استاد کے

اس کا بدلا یہ ملا تقدیر سیدھی ہوگئی (نواز دیوبندی)

وہ برگ وباراگائے ہیں ہم نے گلشن میں

مسل بھی جائیں تو ان سے حنا نکلتی ہے (ڈاکٹر ناشر نقوی)

خیال وفکر ہوں، شہر سخن ہوں

میں اپنے آپ میں اک انجمن ہوں (چندربھان خیال)

پہلے اک بار مل لیا جائے

پھر کوئی فیصلہ کیا جائے (سلیم امروہوی)

اک میں جو صرف جسم سے آگے نہ بڑھ سکا

اک وہ جو میری روح کے اندر اتر گئی (صہیب احمد فاروقی)

تری آواز اونچی ہو رہی تھی

میرا خاموش ہونا لازمی تھا (آشکارا خانم کشف)

رفتہ رفتہ بزم میں وہ یوں پری پیکر کھلا

لب کھلے آنکھیں کھلیں ابرو کھلے پھر سر کھلا (متین امروہوی)

کوئی یزید ہو راون ہو یا کہ ہو فرعون

سبھی کے ظلم کی میعاد ختم ہونی ہے (فاروق جائسی)

اف رے ظالم ترے غرور کی حد

شکر یہ ہے کہ تو خدا نہ ہوا (افضل منگلوری)

ہمیں نصیب تھا جیسا وسیم بچپن میں

نہ ویسا گھر ہے نہ وہ خاندان باقی ہے (ڈاکٹر وسیم راشد)

سیاست سے عدالت تک یہاں سارے ہی میرے ہیں

مسلسل چیختے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے (عرفان عارف)

جوان شخص اگر ہے تو کوئی بات نہیں

مگر بڑھاپے میں عورت بہت ضروری ہے (ڈاکٹراعجاز پاپولر)

بس ملا کر ہاتھ اپنی انگلیا گن لیجئے

آپ کو بھی شہر میں رہنے کا فن آجائے گا (ڈاکٹر نریش)

ہزار کانٹوں میں کھلتے گلاب کی صورت

ہم ایسے لوگ ہی کچھ خال خال زندہ ہیں (ظفر مراد آبادی)

میں چپ ہوا تو بہت بولنے لگی دنیا

جو تھے بھی نہیں راز کھولنے لگی دنیا (راشد جمال فاروقی)

ہمارے آنسوؤں کی کس قدر توہین کی

اس نے کس کے سامنے روکر بہت پچھتا رہے ہیں ہم (معین شاداب)