اے ایم یو:بین الاقوامی یوم مادری زبان پر مختلف پروگراموں کا اہتمام

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 21-02-2022
اے ایم یو:بین الاقوامی یوم مادری زبان پر مختلف پروگراموں کا اہتمام
اے ایم یو:بین الاقوامی یوم مادری زبان پر مختلف پروگراموں کا اہتمام

 

 

آواز دی وائس، علی گڑھ

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے مختلف شعبہ جات، فیکلٹیوں اور مراکز نے آج بین الاقوامی یوم مادری زبان کے موقع پر مختلف پروگراموں کا اہتمام کرکے ملک کے لسانی اور ثقافتی تنوع اور کثیر لسانیت کا جشن منایا۔

شعبہ لسانیات کی مسعود حسین خاں لسانیاتی سوسائٹی کے زیر اہتمام آئی آئی ٹی، گوہاٹی کے شعبہ انسانی و سماجی علوم کے ڈاکٹر متھلیش کمار جھا نے قومی تعلیمی پالیسی 2020 اور ہندوستانی زبانیں موضوع پر ویب خطبہ پیش کیا۔

انھوں نے سہ لسانی فارمولہ کی موجودہ تعلیمی نظام میں اہمیت، قبائلی زبانوں، بولیوں، شیڈول اور نان شیڈول زبانوں پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ انٹرپریٹیشن کا کام مختلف بورڈ آف اسٹڈیز کی مدد کر رہا ہے۔ نج بھاشا (میری زبان) اور راشٹر بھاشا (قومی زبان) کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر متھلیش نے ذات اور صنف کے درمیان فرق کے لئے مقامی زبانوں کے دائرہ عمل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مہاویر پرساد دویدی، گنیش شنکر ودیارتھی اور مہادیوی ورما کے علمی کاموں پر بھی اپنے خیالات پیش کئے۔

شعبہ لسانیات کے سربراہ پروفیسر ایم جے وارثی نے کہا: ”مادری زبانوں کے عالمی یوم کی تقریب دنیا بھر میں لسانی اور ثقافتی تنوع کے بارے میں بیداری پیدا کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں لسانی اور ثقافتی بیداری میں اضافہ ہوا ہے، جس سے مادری زبان کو زیادہ ثقافتی طور پر قبول کیا جا سکتا ہے“۔

پروفیسر وارثی نے کہا کہ حکومت ہند کے وزیر تعلیم مادری زبانوں کا دن منائے جانے پر خاص زور دے رہے ہیں تاکہ مادری زبانوں کو فروغ دیا جا سکیں۔ اس دن ہونے والی سرگرمیاں ہمیں متنوع ہندوستانی ثقافتوں اور ادب کی مختلف شکلوں، دستکاری، پرفارمنگ آرٹس، طرز تحریر اور تخلیقی اظہار کی دیگر شکلوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کریں گی۔ 

ویب ٹاک کی صدارت کرتے ہوئے آئی آئی ٹی، مدراس کے شعبہ لسانیات و انگلش لینگویج ٹیچنگ کے سبکدوش فیکلٹی ممبر پروفیسر شریش چودھری نے کلاسیکی زبانوں کو درپیش چیلنجوں اور جدید دنیا میں ان کی مطابقت پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر شبانہ حمید نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جب کہ مسٹر مسعود علی بیگ نے پائیدار معاشروں کے لئے ثقافتی اور لسانی تنوع کی اہمیت پر بات کی۔

دوسری طرف زیڈ اے ڈینٹل کالج میں ’تعلیم اور معاشرے میں شمولیت کے لئے کثیر لسانیت کا فروغ‘ موضوع پر مضمون نویسی، سلوگن رائٹنگ اور پوسٹر سازی کے مقابلے منعقد ہوئے۔ پرنسپل پروفیسر آر کے تیواری نے مادری زبانوں کے فروغ اور توسیع کی اہمیت اور ملک و بیرون ملک لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت پر اظہار خیال کیا تاکہ افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے کی بنیاد پر یکجہتی کو فروغ دیا جا سکے۔ پروگرام کوآرڈینیٹر پروفیسر گیتا راجپوت نے ملک کی ترقی کے لئے مادری زبانوں کے زیادہ استعمال پر زور دیا۔ کمیونٹی میڈیسن شعبہ کے تحت قائم رورل ہیلتھ ٹریننگ سینٹر، جواں میں فیکلٹی ممبران، ریزیڈنٹ ڈاکٹروں اور دیگر افراد نے جونیئر ہائی اسکول،جوان کے طلبہ کے سامنے 'مادری زبان کی اہمیت' کے بارے میں گفتگو کی۔

کمیونٹی میڈیسن شعبہ کے چیئرمین پروفیسر انیس احمد نے کہاکہ طلبہ کو بتایا گیا کہ مادری زبانوں کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔ فعال شرکت پر طلبہ کو تحائف بھی دیے گئے۔ رورل ہیلتھ ٹریننگ سینٹر کی انچارج ڈاکٹر عظمیٰ ارم، ڈاکٹر ثمینہ احمد، ڈاکٹر خان اقبال عقیل، ڈاکٹر اسماء آفتاب، ڈاکٹر ارپت سکسینہ، توصیف احمد اور ذکیہ سلطان نے بھی کثیر لسانیت کے فروغ پر اظہار خیال کیا۔

ویمنس کالج، اے ایم یو میں بین الاقوامی یوم مادری زبان پر منعقد ہونے والے سلوگن اور پوسٹر سازی مقابلہ میں عرضیہ ناز نے اوّل مقام حاصل کیا، جب کہ فاطمہ افضل اور بشریٰ پروین مشترکہ طور پر دوسرے اور شاہین آرا تیسرے نمبر پر رہیں۔ ارم صبا اور تبسم کو حوصلہ افزائی انعام دیا گیا۔

ویمنس کالج کی پرنسپل پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہا ”مادری زبان کا بین الاقوامی دن عوامی زندگی میں مادری زبان کی ترقی کے لئے عزم ظاہر کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

یہ دن لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ ملک کی ہمہ جہت ترقی کے لیے کثیر لسانی ہونے کی خاص اہمیت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی فرد پیچھے نہ رہ جائے“۔

پروفیسر ریشمہ بیگم (پروگرام سپروائزر) نے کہا کہ مادری زبان لوگوں کو بااختیار بناتی ہے۔ آئیے ہم سب مادری زبانوں میں بات چیت کرتے ہوئے اپنی زبانوں کے تحفظ اوران کی ترقی کا عزم کریں۔ ڈاکٹر شگفتہ نیاز اور ڈاکٹر نازش بیگم نے پورے ملک میں زبانوں اور بولیوں کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔