امام بخاری یونیورسٹی: سیمانچل کے لیے ایک تعلیمی تحفہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-01-2022
امام بخاری یونیورسٹی: سیمانچل کے لیے ایک تعلیمی تحفہ
امام بخاری یونیورسٹی: سیمانچل کے لیے ایک تعلیمی تحفہ

 

 

سلطانہ پروین،پورنیہ

ریاست بہار کے علاقہ سیمانچل  تعلیم اور روزگار کے معاملے میں ملک کے پسماندہ علاقوں میں سے ایک ہے۔اس علاقے کے لوگ عام طور پر یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔ اب بہت جلد اس علاقے کی عوام کو تعلیمی تحفہ ملنے والا ہے۔یہ تعلیمی تحفہ امام بخاری یونیورسٹی کی شکل میں مل رہا ہے۔

امام بخاری یونیورسٹی کشن گنج کے توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے بنائی جا رہی ہے۔ جس سے سیمانچل جیسے پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کے لیے تعلیم کے دروازے کھلیں گے۔ توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے صدر مولانا مطیع الرحمن کی کوششوں کے نتیجے میں امام بخاری یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے بہار حکومت کی طرف اجازت مل گئی ہے۔

بائس سال پرانا خواب

مولانا مطیع الرحمن کہتے ہیں کہ ان سے پہلے ان کے والد محمد عبدالمتین توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے صدر تھے۔ انہوں نے ہی تقریباً 22 سال قبل کشن گنج میں امام بخاری یونیورسٹی قائم کرنے کا سوچا تھا۔ اس نے نام بھی رکھ لیا تھا۔ یونیورسٹی کا نام مشہور محدث امام بخاری کے نام پر رکھا گیا ہے، جو کہ مشہور کتاب صحیح البخاری کے مرتب تھے۔

مولانا مطیع الرحمن کہتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی زندگی میں اس کا نام سوچا تھا۔ لیکن اس وقت اس کا اندراج نہیں ہو سکا۔ جنوری 2010 میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد مطیع الرحمان چیئرمین کے طور پر آئے اور اس سمت میں کام کو آگے بڑھایا۔

مولانا مطیع الرحمن مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن، آل انڈیا مسلم ڈیولپمنٹ کونسل کے رکن اورامارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ اوراڑیسہ کے رکن بھی ہیں۔

فروری2021 میں ملی حکومت سے منظوری 

کئی سالوں کی مسلسل کوششوں کے بعد 5 فروری2021 کو بہار حکومت کی جانب سے امام بخاری یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے لیٹر آف انٹنٹ دیا گیا۔ حکومت نے کہا کہ دو سال کے اندرایک لاکھ مربع فٹ کی امارت تعمیر کرنا ہوگی۔ اس کے بعد مزید کارروائی شروع ہوگی۔

گذشتہ سال 4 اپریل2021 کو پانچ عمارتوں کی تعمیرکےمنصوبےکاسنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا اور تعمیراتی کام روکنا پڑا۔

امام بخاری یونیورسٹی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر شاہ فہد خان کا کہنا ہے کہ بہت جلد دوبارہ کام شروع کر دیں گے تاکہ ایک لاکھ مربع فٹ کی تعمیر دو سال کی تکمیل سے قبل مکمل ہوجائے۔

سیمانچل کے عوام کا فائدہ

سیمانچل علاقے میں چاراضلاع آتے ہیں۔ اگر ہم ان اضلاع میں مسلمانوں کی تعداد کو دیکھیں تو پورنیہ میں 38.46، کٹیہار میں 43 فیصد، ارریہ میں 40 اور کشن گنج میں 67.70 فیصد مسلمان ہیں۔

ان اضلاع میں رہنے والے مسلمانوں کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے علاقے سے باہر جا سکیں۔ یہاں کے مسلمان صرف مزدوری کرنے کے لیے علاقے سے باہر نکلتے ہیں۔

امام بخاری یونیورسٹی کے بننے کے بعد اس علاقے کے مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ سیمانچل میں رہنے والے دوسرے لوگوں کی مالی حالت بھی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ یونیورسٹی ان کے لیے بھی معاون ثابت ہوگی۔

21 ایکڑ اراضی پر پانچ عمارتیں تعمیر کی جائیں گی۔ یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر شاہ فہد خان کا کہنا ہے کہ فی الحال پانچ عمارتوں کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ یہ تعمیر 21 ایکڑ اراضی پر کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ 150 ایکڑ اراضی ٹرسٹ کے پاس ہوگی جسے یونیورسٹی کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ دو اسکولوں اور آئی ٹی آئی کالج کے ساتھ دیگر قسم کی پڑھائی بھی کی جارہی ہے۔ یہاں تقریباً تین ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

عوام سے مدد کی اپیل

یونیورسٹی کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ اگر پانچ عمارتیں چار منزلہ بنیں تو ایک لاکھ مربع فٹ ہو گی۔ اس تعمیر کے لیے مقررہ لاگت 1200 روپے فی مربع فٹ آئے گی۔ اس کے لیے ٹرسٹ کی جانب سے فارم پرنٹ کروا کر لوگوں سے مدد لی جا رہی ہے۔ خواہشمند حضرات اس کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

عوام کی رائے

پورنیہ کے ایک سماجی کارکن وجے سریواستو کا کہنا ہے کہ سیمانچل جیسے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے امام بخاری یونیورسٹی ایک تحفہ سے کم نہیں ہے۔ یہ علاقہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ بی جے پی کے آرٹ کلچر سیل کے ڈویژنل لیڈر سنجے کمار مشرا کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کے آگے آنے اور تعلیمی اداروں کے قیام سے سیمانچل کی پسماندگی دور ہو جائے گی۔ لوگ پڑھیں گے تو باشعور ہوں گے، اگر وہ باشعور ہوں گے تو اپنے حقوق کو سمجھیں گے اور پھر آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

پورنیہ میونسپل کونسل کے سابق صدرایڈووکیٹ شاہد رضا کا کہنا ہے کہ امام بخاری یونیورسٹی کے قیام سے اس علاقے کے لوگوں کو کافی فائدہ ہوگا۔ جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں اور پیسے کی کمی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں، ایسے لوگ آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ اس سے ہر طبقہ کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔