صحت مند معاشرہ کے لئے لازمی ہے صحت مند سوچ :جماعت اسلامی ہند

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 27-09-2021
صحت مند معاشرہ کے لئے لازمی ہے صحت مند سوچ کا ہونا:جماعت اسلامی ہند
صحت مند معاشرہ کے لئے لازمی ہے صحت مند سوچ کا ہونا:جماعت اسلامی ہند

 

 

نئی دہلی: ”تعلیم، غذا، صحت، علاج اور صاف ستھرا ماحول ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ صرف بیماری کا نہ ہونا صحت نہیں ہے بلکہ مکمل دماغی، جسمانی تندرستی اور زندگی کی ضروریات کی فراہمی کا نام صحت ہے“

یہ باتیں جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ”صحت مند دماغ، صحت مند جسم اور صحت مند سماج“ کے عنوان پر منعقدہ ویبنار میں کہی۔

اس ویبنار کو جماعت اسلامی کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جس میں ملک و بیرون ملک سے شرکاء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

امیر جماعت نے اپنے صدارتی کلمات میں مزید کہا کہ ہم جب اعتدال سے ہٹتے ہیں تو ہماری صحت،ہمارے جسم، ہماری سوسائٹی اور ہمارا ملک سب پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں اور ہم زندگی میں طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اسی لئے قرآن کریم نے اعتدال اور عدل پر بار بار زور دیا ہے۔یہ اعتدال ہر جگہ ہے، کائنات کی تخلیق میں، سوسائٹی میں اور ہمارے جسم کے اندر بھی۔ اس میں تجاوز کرنے سے عدم توازن پیدا ہوتا ہے جو ماحولیات میں خرابی، سوسائٹی میں خرابی، یہاں تک کہ ہمارے جسم اور سوچ میں خرابی پیدا کرتا ہے اور ہمارے سوچنے کا انداز منفی سمت میں چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں فرقہ واریت، منافرت، سماج میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ دماغ کو اس منفی سوچ سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ عدل اور اعتدال پر قائم رہا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جب دماغ بیمار ہوتا ہے تو دوسروں کے تئیں منافرت پھیلانے، فرقہ واریت کو ہوا دینے کی راہ پر انسان چل پڑتا ہے اور ان چیزوں کو حکومت کی جانب سے غلط پالیسیاں اختیار کرنے کی وجہ سے ہواملتی ہے“۔

ویبنار کو نائب امیر جماعت جناب محمد جعفر صاحب نے بھی خطاب کیا۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ یہ تندرستی جسمانی طور پر بھی ہونی چاہئے اور نفسیاتی طور پر بھی۔

اگر انسان جسمانی طور پر تندرست نہ ہو تو اس کے سوچنے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ کسی بھی معاملے کو صحیح سمت میں سوچنے سے قاصر ہوتا ہے اور اگر وہ جسمانی طور پر تو تندرست ہے لیکن نفسیاتی طور پر صحت مند نہیں ہے تو وہ اپنی جسمانی طاقت کا غلط استعمال کرنے لگتا ہے۔پھر دھیرے دھیرے اپنے لئے اور پورے معاشرے کے لئے زحمت بن جاتا ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں مثبت سوچ رکھنے والے اذھان کی پرورش کی جائے جو فسطائی طاقتوں اور فرقہ واریت جیسے ماحول کو پیدا ہونے سے روکنے میں کلیدی کردار ادا کرے“۔

اس موقع پر بنگلور کے مشہور کالم نویس جناب کے۔سی۔ رگھونے کہا کہ ہمارے سوچنے کی صلاحیت کمزور پڑتی ہے تو ہم خالق کائنات کو بھی دھرم کے دائرے میں قید کرنے کی باتیں سوچنے لگتے ہیں۔

ایسی ذہنیت ایٹمی طاقتوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے لہٰذا اس کو روکنے کی سخت ضرورت ہے۔مشہور رائٹراور کہانی نگار جناب پنکج چترویدی نے کہا کہ مذہب کا نعرہ لگانا، مذہبی لباس اور علامتوں کو اپنے جسم پر سجا لینا مذہب نہیں ہے بلکہ مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنا مذہب ہے۔جو لوگ مذہب کے نام پر دوسروں کو اذیت دیتے ہیں اور کسی دوسرے مذہب کی لاش پر کودتے ہیں وہ دراصل اپنے ہی مذہب کی توہین کررہے ہیں۔یہ ان کے بیمار دماغ کی علامت ہے۔

دہلی یونیورسٹی،شعبہ تواریخ کے پروفیسر اجیت جھا نے کہا کہ صحت سے متعلق لوگوں میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔کورونا وبا کے دوران ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگوں کو بے خبری اور ناواقفیت کی وجہ سے زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے۔اس کے لئے عوام میں بیداری لانے کے ساتھ انتظامیہ کی جانب سے پوری تیاری ہونی چاہئے،ساتھ ہی ہمارا ذہن سماج کے مفاد کو سوچنے والا ہو کیونکہ ہمارا مفاد سماج اور ملک کے آئین کے مفاد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔یہ مفاد تبھی سامنے آسکتا ہے جب ہم سب کے ساتھ انصاف اور اعتدال کا رویہ اختیار کریں۔

پروگرام کی نظامت کویت سے جناب شرف الدین۔بی۔ ایس نے کی جبکہ کویت میں مقیم عبد الرحمن شاہد انصاری کی تلاوت قرآن پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔

(پریس ریلیزجماعت اسلامی ہند)