اے ایم یو- سر سید احمد خاں کی جلائی ہوئی روشنی ہمیشہ ہماری راہوں کو منور کرے- جسٹس عبدالشاہد

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 18-10-2025
اے ایم یو- سر سید احمد خاں کی جلائی ہوئی روشنی ہمیشہ ہماری راہوں کو منور کرے- جسٹس عبدالشاہد
اے ایم یو- سر سید احمد خاں کی جلائی ہوئی روشنی ہمیشہ ہماری راہوں کو منور کرے- جسٹس عبدالشاہد

 



  علی گڑھ، 17 اکتوبر:”خدا کرے کہ سر سید احمد خاں کی جلائی ہوئی روشنی ہمیشہ ہماری راہوں کو منور کرے، ہمارے ذہنوں کو جلا بخشے اور ہمیں یاد دلائے کہ ایک روشن دماغ شخص لاکھوں کی تقدیر بدل سکتا ہے“۔ ان خیالات کے اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں جشن یوم سرسید کے مہمان خصوصی کے طور پر خطاب کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج عزت مآب جسٹس عبدالشاہد نے کیا۔

اے ایم یو سے فارغ التحصیل جسٹس شاہد نے آج سے 41 سال قبل مادرِ علمی سے اپنی وابستگی کے ایام کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ استقامت، بلند ہمتی اور اخلاقی نصب العین فرد کی ایک طاقت ہوا کرتی ہے جو اسے اپنے خوابوں کی تکمیل تک لے جاتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سر سید کا لازوال پیغام یہ ہے کہ کسی قوم کی ترقی کے لیے سب سے پہلی شرط معاشرے کے مختلف طبقوں کے درمیان بھائی چارہ اور اتحاد ہے اور یہ کہ جہالت غربت اور مفلسی لے کر آتی ہے اور تعلیم ہی اس کا واحد علاج ہے۔ طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے مقاصد کے ساتھ وابستہ رہیں، مسلسل سیکھتے رہیں، نقصان دہ عادات کو ترک کریں اور ہمت شکنی سے مایوس نہ ہوں بلکہ اسے حوصلے اور عز م مصمم میں بدلنا سیکھیں۔

جسٹس شاہد نے سر سید اور ان کے صاحبزادے جسٹس سید محمود کو بھی خراج تحسین پیش کیا، اور عدلیہ و قوم سازی میں ان کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے طلبہ پر زور دیا کہ وہ دیانت، لگن اور ثابت قدمی کے انہی اصولوں کو اپنی زندگی میں اپنائیں۔

مہمانِ اعزازی، اسرو کے سابق چیئرمین اور چانکیہ یونیورسٹی، بنگلورو کے چانسلر ڈاکٹر ایس سومناتھ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سر سید نے اپنی دور اندیشی سے ایمان کو تعقل کے ساتھ اور جدید سائنس کو اخلاقی اقدار کے ساتھ جوڑ ا۔ انہوں نے کہا کہ سر سید کا خواب ایک سائنسی سوچ رکھنے والے معاشرے کی تعمیر تھا جہاں تعلیم،اخلاقی و قومی احیا کی کلید ہو، اور یہ وژن آج بھی پوری طرح قابل عمل ہے۔

ڈاکٹر سومناتھ نے کہا کہ علم کی جستجو خواہ سائنس کے ذریعے ہو یا روحانی تفکر کے ذریعے، تجسس، اشتراک اور اخلاقی مقصد کا سفرہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھرتی ہوئی ٹکنالوجیز مثلاً خلائی تحقیق، جینومکس اور مصنوعی ذہانت، معاشرتی تبدیلی کے لیے بے مثال مواقع فراہم کر رہی ہیں۔انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ سائنسی مہارت اور اخلاقی شعور کو یکجا کر کے قوم کی تعمیر میں حصہ لیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم یو کے طلبہ و اساتذہ پہلے ہی مختلف سائنسی منصوبوں اور تعاون میں حصہ لے چکے ہیں، جو یونیورسٹی کے اس کردار کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ مستقبل کے رہنما، سائنسداں اور مؤجد تیار کر رہی ہے۔

ڈاکٹر سومناتھ نے کہا کہ سائنسی تحقیق کو انسانی ضمیر کے ساتھ جوڑنا ہی حقیقی جدیدیت ہے۔ انھوں نے کہا ”اصل جدیدیت وہ ہے جو علم کے دائرے کو وسیع کرے، ساتھ ہی ضمیر کو مرکز میں رکھے“۔ انہوں نے نوجوان نسل کو نصیحت کی کہ وہ سر سید کی اس وراثت کو جاری رکھیں جس میں تعلیم جہالت کے خلاف ایک ہتھیار ہے

مہمان خاص، پینگوئن رینڈم ہاؤس کی سینئر نائب صدر محترمہ مِلی ایشوریہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سر سید کی تعلیمات، خصوصاً جدید علوم کا حصول، سبھی کی شمولیت، اور تعلیم کے ذریعے خود مختاری پر ان کی توجہ، آج بھی اتنی ہی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی، کھلا ذہن، اور تنوع کا احترام آج کے نوجوانوں کے لیے لازمی اقدار ہیں۔انہوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ اپنی جڑوں سے وابستہ رہیں مگر بلند مقاصد کے لیے جدوجہد کریں، کیوں کہ صبر، ثابت قدمی اور روزمرہ کی محنت ہی بلندی حاصل کرنے کی کلید ہے۔

وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے اپنے صدارتی خطاب میں سر سید کے وژن کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے خواب دیکھنے والے تھے جو خیالات کے معمار بنے، وہ ایسا یقین رکھنے والے تھے جو معاشرے کے مصلح بنے، اور وہ ایسے استاد تھے جو عوام کے لیے مشعل راہ بنے“۔

وائس چانسلر نے کہا کہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید کے نظریات کا زندہ استعارہ ہے، جہاں ایمان کے ساتھ عقل، تعلیم کے ساتھ برداشت اور علم کے ذریعے سماجی تبدیلی کو فروغ دیا جاتا ہے۔

پروفیسر خاتون نے یونیورسٹی کی حالیہ دستیابیوں کا ذکر کیا، جن میں این آئی آر ایف درجہ بندی میں ٹاپ 10 میں جگہ بنانا، ملک کے جیو اسپیشل مشن میں بیسٹ یونیورسٹی ایوارڈ کا حصول، 6.5 میگاواٹ سولر پاور کی پیداوار، اور 5 کروڑ روپے کے ڈی ایس ٹی-ٹی بی آئی گرانٹ سے ”اے ایم یو انّوویشن فاؤنڈیشن“کا قیام شامل ہے جو مصنوعی ذہانت، صحت، اور خلائی ٹکنالوجی میں اسٹارٹ اپس کی مدد کر رہاہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایم یو نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک، اٹلی کی یونیورسٹی آف جینوا، انڈونیشیا کی یونیورسیٹس گاجہ مادا، اور برونئی دارالسلام کی ٹکنالوجی یونیورسٹی کے ساتھ معاہدے کیے ہیں، نیز نوو نورڈسک انڈیا اور ایسٹرازینیکا جیسی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری قائم کی ہے۔

وائس چانسلر نے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ تحقیق، جدت اور اخلاقی قیادت کے ذریعے ایسا علم حاصل کریں جو سماج کی خدمت کرے، ایسی ٹکنالوجی تخلیق کریں جو عوام کو راحت پہنچائے اور ایسی ترقی کا باعث بنیں جو شمولیتی ہو اور سب کے لیے سود مند ہو۔انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مضمون نویسی مقابلے سے لے کرسر سید ایکسیلنس ایوارڈزتک، اے ایم یو کے سبھی اقدامات سرسید کے ورثہ سے ہی تحریک پاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایمانداری کے ساتھ تعلیم، ذمہ داری کے ساتھ تحقیق اور شمولیت کے ساتھ اختراع کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ”وِکست بھارت 2047“کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

پروفیسر خاتون نے اپنے خطاب کا اختتام ان جملوں پر کیا: ”ہمارے بانی کی سب سے عظیم تخلیق ایک کالج نہیں بلکہ ایک ضمیر ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ جدید ہندوستان کا ضمیر بنی رہے، جہاں دماغ بیدار ہو، دل نرم ہو، اور روح مطمئن ہو“۔تقریب میں پروفیسر فیصل دیوجی (بیلیول کالج، یونیورسٹی آف آکسفورڈ) اور ڈاکٹر عبد القدیر (چیئرمین، شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز) کو بالترتیب انٹرنیشنل اور نیشنل سرسید ایکسیلنس ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔

پروفیسر فیصل دیوجی نے ویڈیو پیغام کے ذریعہ شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اوّلین تحقیق علی گڑھ تحریک پر مبنی تھی اور اس تحریک کے نتیجہ میں ایک متحدہ ہندوستانی مسلم کمیونٹی کاوجود آج بھی ان کی تاریخ فہمی کا حصہ ہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر نے سر سید سے تحریک یافتہ اپنے تعلیمی مشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شاہین اسکولوں نے مذہبی اور عصری تعلیم کے امتزاج سے بچوں کے لیے ایک عمدہ اقامتی تعلیمی ماحول فراہم کیا ہے، اور ایک بامقصد اور متحرک نسل کو تیار کرنے کے لئے اس نظام کو وسعت دینا وقت کی ضرورت ہے۔

تقریب میں اے ایم یو کے طلبہ زینب فائزہ اسلام اور ابو معاذ نے تقاریر کیں۔ اساتذہ میں پروفیسر فضا تبسم اعظمی اور پروفیسر محمد قمرالہدی فریدی نے سر سید کی علمی، تعلیمی اور سماجی خدمات پر روشنی ڈالی۔

آل انڈیا مضمون نویسی مقابلہ بعنوان ”سر سید احمد خاں اور علی گڑھ تحریک: ہندوستان میں سیکولر تعلیم کے لئے ایک معقول نقطہ نظر“کے فاتحین کو وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون اور پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد محسن خان نے انعامات اور اسناد سے نوازا۔

انگریزی میں پہلا انعام طوبیٰ شمسی (بی اے، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)، دوسراانعام استوتی نارائن (بی اے ایل ایل بی، نالسار یونیورسٹی آف لا، حیدرآباد) اور تیسراانعام یانس اقبال (بی اے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کو پیش کیا گیا۔ اردو میں پہلا انعام طاہر حسین (ریسرچ اسکالر)، دوسراانعام آفریں رضا (ریسرچ اسکالر)، اور تیسرا انعام ابو داؤد (بی اے) کو دیا گیا۔ ہندی میں اول انعام محمد صہیب (بی اے ایل ایل بی)، دوسراانعام ازرم فاطمہ صدیقی (بی کام)، اور تیسرا انعام سلمیٰ اشفا (ریسرچ اسکالر) کو دیا گیا۔ اردو اور ہندی میں انعامات جیتنے والے طلبہ اے ایم یو سے ہیں۔

اس سے قبل یوم سرسید کی سرگرمیوں کا آغاز یونیورسٹی کی مسجد میں بعد نماز فجر قرآن خوانی سے ہوا، اس کے بعد سر سید کی مزار پر چادر پوشی کی گئی۔

وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے سرسید اکیڈمی میں معزز مہمانوں اور اساتذہ کے ہمراہ سر سید اکیڈمی اور مولانا آزاد لائبریری کے اشتراک سے منعقدہ سر سید کی تصانیف اور کتب کی نمائش کا افتتاح کیا۔اس موقع پر سر سید کی زندگی اور افکار پر مبنی نئی مطبوعات کا اجراء عمل میں آیا۔ ان کتابوں میں ’سرسید اِن کلکتہ‘ از پروفیسر عائشہ منیرہ رشید، ’سرسید کا قیامِ علی گڑھ‘ از ڈاکٹر جمیل اختر، ’سرسید کا قیام بجنور‘ از ساجد نعیم، ’سوانح سرسید: ایک بازدید‘ از پروفیسر شافع قدوائی، ’سرسید شناسی کے نئے دریچے‘ از پروفیسر اے آر قدوائی، ’داستان ایک مردِ جنوں پسند کی‘ از پروفیسر غضنفر،اور تہذیب الاخلاق و فکر و نظر کے خصوصی شمارے شامل ہیں۔

وائس چانسلر نے 1866ء میں سرسید کے شروع کردہ ”علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ“کے ڈیجیٹل آرکائیوز کا اجراء بھی کیا، جس میں گزٹ کے ڈیجیٹل شمارے دستیاب ہیں جسے محققین، مؤرخین اور عام قارئین دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔

اے ایم یو رجسٹرار پروفیسر عاصم ظفر نے گلستانِ سید میں منعقدہ جشن یوم سرسید میں استقبالیہ کلمات پیش کئے، جب کہ ڈین اسٹوڈنٹس ویلفیئر پروفیسر رفیع الدین نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔

پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شارق عقیل اور ڈاکٹر فائزہ عباسی نے کی۔ تقریب کا اختتام یونیورسٹی ترانہ اور قومی ترانے کے ساتھ ہوا۔جشن یوم سر سید کے تحت یونیورسٹی اقامتی ہالز میں آج شام روایتی ڈنر کا اہتمام کیا جائے گا جس میں مختلف معزز مہمانان، اعلیٰ افسران اور سابق طلبہ شرکت کریں گے۔