اے ایم یو :دھوم دھام سے منایا گیا یوم آزادی کا جشن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-08-2021
اے ایم یو میں جشن آزادی
اے ایم یو میں جشن آزادی

 

 

علی گڑھ، 15/ اگست: ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) مجاہدین آزادی کی حیات و خدمات کو دستاویزی شکل دینے کی کوشش کر رہی ہے، خاص طور سے آزادی کے اُن متوالوں کی حیات و خدمات کو مرتب کیا جارہا ہے جن کے بارے میں لوگ کم جانتے ہیں مگر ان کی خدمات کسی سے کم نہیں ہیں“۔ ان خیالات کا اظہار اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی کے اسٹریچی ہال پر پچہترویں یوم آزادی کی تقریب میں پرچم کشائی کے بعد اپنے خطاب میں کیا۔

کووِڈ پروٹوکول کے لحاظ سے منعقد کی گئی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر منصور نے کہا کہ ایڈوانسڈ سنٹر فار ویمنس اسٹڈیز کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ہندستان کی خاتون مجاہدین آزادی پر ایک جامع کتاب تیار کرے۔

 وائس چانسلر نے کہا ”اس موقع پر میں اے ایم یو برادری، ماضی اور حال کے تمام اراکین اور ملک و بیرون ملک کے لوگوں کو بھی دلی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، جو کہ کووِڈ وبا کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ ہر زندگی قیمتی ہے اور میری دعا ہے کہ ان کی روحوں کو سکون ملے“۔ پروفیسر منصور نے سوگوار کنبوں سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مرحوم اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے اراکین اے ایم یو کی کامیابی کی کہانی کا حصہ ہیں اور وہ ہمیشہ ہماری یادوں کا حصہ رہیں گے اور ہمارے دلوں اور دعاؤں میں زندہ رہیں گے“۔

پروفیسر منصور نے کہا کہ اے ایم یو انتظامیہ مرحومین کے کنبوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔ انھوں نے کہا ”میں آپ سب کو جشن آزادی کی مبارکباد دیتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ قومی احترام اور فخر کے اس دن پر ہم اپنے ملک کا 75 واں یوم آزادی منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ 15/ اگست کی نصف شب ہندستانی تاریخ کے عظیم ترین لمحات میں سے ایک ہے، جب ہمارے ملک نے برطانوی راج کے خلاف تقریباً دو سو برس کی جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی“۔

 پروفیسر منصور نے زور دے کر کہا کہ ترنگے کو لہرانا اور اسے سلام کرنا محض علامتی نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ اپنے بہادر مجاہدین آزادی کی جدوجہد، عزم و حوصلہ کو خراج تحسین پیش کرنا اور ان کی خدمات کو یاد کرنے کا موقع ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، سبھاش چندر بوس اور سیکڑوں دیگر مجاہدین آزادی کی لگاتار کوششوں اور قربانیوں کی بدولت آج ہم آزاد ہندستان میں سانس لے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ”شہید بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خان، خودی رام بوس، چندر شیکھر آزاد اور سیکڑوں دیگر لوگوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا“۔

 وائس چانسلر نے کہا ”یہ حقیقت باعث مسرت ہے کہ ہمارے ملک نے مختلف شعبوں میں بہت پیش رفت کی ہے اور وطن عزیز کے لئے ہمارے بزرگوں نے جن عظیم اہداف کے حصول کا خواب دیکھا تھا، ان حصولیابیوں نے ہمیں اُن کی طرف بڑھنے کے قابل بنایا ہے۔ ہندوستان کثرت میں وحدت کا مظہر ہے اور اپنے تمام شہریوں کے درمیان امن، محبت، مساوات اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے جیسا کہ آئین میں لکھا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خاں نے بالکل درست کہا تھا ”کسی قوم کی ترقی کے لیے پہلی شرط معاشرے کے طبقات کے درمیان بھائی چارہ اور اتحاد کا ہونا ہے“۔

 پروفیسر منصور نے مزید کہا: کووڈ وبا نے ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سامنے صحت، معیشت اور تعلیم کے میدان میں بہت بڑا چیلنج کھڑا کیا ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم متحد رہیں اور کووِڈ کے سلسلہ میں معقول طرز عمل اپنائیں اور اپنے موجودہ صحت بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرکے وائرس کو شکست دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ تیسری کووڈ لہر اگر آئی تو اے ایم یو اس سے نمٹنے کے لئے پوری تیاری کر رہا ہے۔ آئیے دعا کریں کہ ایسا نہ ہو، انشاء اللہ۔

 وائس چانسلر نے کہا: ”وباکے چیلنج سے نمٹنے کے لیے، یونیورسٹی کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی) میں آکسیجن پیدا کرنے کے تین پلانٹ نصب کیے گئے ہیں تاکہ آکسیجن کی کمی نہ ہو، پچاس بیڈ کا پیڈیاٹرک آئی سی یو شروع کیا گیا ہے، کووِڈ وارڈ کی تجدید کی گئی ہے اور نیا کووِڈ آئی سی یو قائم کیا گیا ہے، نئے وینٹی لیٹر اور آکسی جنریٹر خریدے گئے ہیں، اور کووِڈ مریضوں کے لئے علیحدہ ڈائلیسس یونٹ، آپریشن تھیٹر اور لیبر روم کی سہولیات تیار کی گئی ہیں۔

پروفیسر منصور نے کہا ”میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے طبی سہولیات کو بہتر بنانے میں دل کھول کر تعاون کیا۔ پورے ملک میں طبی اور نیم طبی عملہ کی انتھک محنت اور لگن نے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کی ہے۔ میں سبھی سے مخلصانہ اپیل کرتا ہوں کہ جلد از جلد کووڈ ویکسین لگوائیں اور بے بنیاد افواہوں پر یقین نہ کریں۔ پروفیسر منصور نے کہا کہ ٹیکہ کاری اس وبا سے لڑنے اور معاشرے کو معمول پر لانے کا ایک یقینی راستہ ہے۔

 ہندستانی اولمپک دستے کی ستائش کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا: ”کووِڈ وبا کے باوجود، حالیہ ٹوکیو اولمپکس نے ملک میں خوشی اور امید کی کیفیت پیدا کی ہے۔ میں اس موقع پر ان تمام کھلاڑیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس میں شرکت کی اور ملک کا نام روشن کیا“۔

انھوں نے کہا کہ ٹوکیو، ہندوستانی کھیلوں اور ہمارے کھلاڑیوں کے لیے ایک تاریخی لمحہ رہا ہے اور یقینا یہ ہمارے نوجوانوں کو کھیلوں کے تئیں سنجیدگی اختیار کرنے اور جسمانی سرگرمی و فٹنس کی ثقافت کو بڑھانے کے لئے متحرک کرے گا۔ نیرج چوپڑا کا گولڈ میڈل اس بات کی گواہی ہے کہ اگر ٹریننگ اور کوچنگ میں عالمی معیار کی سہولیات تک رسائی حاصل ہو اور اسپورٹنگ برادری کی پُرزور کوششیں ہو تو ہمارا ملک مستقبل میں کھیلوں کی دنیا میں غیر معمولی اونچائیاں حاصل کر سکتا ہے۔

 وائس چانسلر نے آخر میں سبھی کے لئے اچھی صحت و مسرت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے جشن آزادی کی مبارکباد پیش کی۔ اس کے بعد انھوں نے ڈاکٹر حمید طارق (بیگم وائس چانسلر)، رجسٹرار مسٹر عبدالحمید آئی پی ایس اور پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی کے ہمراہ سرسید ہال کے احاطے میں پودے لگائے۔