اے ایم یو فیکلٹی ممبر نے جنگ آزادی میں اے ایم یو کے کردار پر خطبہ دیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
اے ایم یو فیکلٹی ممبر نے جنگ آزادی میں اے ایم یو کے کردار پر خطبہ دیا
اے ایم یو فیکلٹی ممبر نے جنگ آزادی میں اے ایم یو کے کردار پر خطبہ دیا

 

 

علی گڑھ، 31/ جنوری: ہندوستان کی آزادی کے 75 سالہ تقریبات کے ایک حصے کے طور پر بیگم عزیز النساء ہال، اے ایم یو نے’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے تحت ’آزادی کی جدوجہد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کردار‘ موضوع پر مسٹر محمد ناصر (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ قانون، اے ایم یو) کے آن لائن لیکچر کا اہتمام کیا۔

اپنے خطاب میں مسٹر ناصر نے کہا کہ ہمارے حریت پسندوں کی بہادری کا جذبہ محض انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے میں نہیں بلکہ ہندوستانی ذہنوں کو خوف سے آزاد کرانے میں مضمر ہے۔

دوسرے نکتہ کے بغیر پہلا نکتہ ممکن نہیں تھا۔ ہندوستان کی قانونی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے سرسید کے بیٹے اور نوآبادیاتی ہندوستان میں انگریز ججوں سے اختلاف رائے کرنے والے قدآورجج جسٹس سید محمود اور کی متاثر کن زندگی پر تبادلہ خیال کیا جو الہ آباد ہائی کورٹ میں جج کے طور پر مقرر ہونے والے پہلے ہندوستانی تھے۔

مسٹر ناصر نے کہا ”علی گڑھ فکر کے ایک روشن چراغ جسٹس سید محمود پہلے جج تھے جنھوں نے عدالتی آزادی کی حمایت کرتے ہوئے نوآبادیاتی طاقت کے خلاف مزاحمت کی۔ اس زمانہ میں سیاسی حکومت کی عدالتی تابعداری اور اس سے بھی زیادہ نمایاں طور پر اینگلو سیکسن چیف جسٹس کے سامنے مقامی جج کی تابعداری کو ایک فطری عمل سمجھا جاتا تھا۔ ان حالات میں، جسٹس محمود اس وقت اختلاف رائے کی علامت بن گئے جب انہوں نے اپنی اختلافی آراء کے ساتھ انگریز چیف جسٹس کو چیلنج کیا،اور اسے آزادی کے بعد عدالتوں نے درست قانون وضع کرنے کے طور پر قبول کیا۔

اس اختلاف رائے کی وجہ سے سید محمود کو انگریز چیف جسٹس نے بطور جج استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا“۔ اے ایم یو کے صد سالہ جشن پر انہوں نے کہا ”موجودہ دور ہندوستان اور اے ایم یو کی تاریخ میں ایک اہم لمحے کی نمائندگی کرتا ہے کیونکہ ہندوستان اسی وقت کے آس پاس آزادی کا 75سالہ جشن منارہا ہے جب اے ایم یو نے اپنے قیام کے سو سال پورے کئے ہیں“۔

مسٹر ناصر نے عدم تعاون کی تحریک کے عروج پر اے ایم یو کے جنم، مہاتما گاندھی کے ایم اے او کالج کے دورے اور اس تحریک میں ایم اے او کالج کے طلباء کی شرکت تک کے واقعات کا ذکر کیا۔ اپنے خطبہ میں انھوں نے ایم اے او کالج سے تعلیم یافتہ شخصیات جیسے کہ راجہ مہندر پرتاپ، رفیع احمد قدوائی، مولانا حسرت موہانی، علی برادران، خان عبدالغفار خان وغیرہ کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔

انھوں نے اے ایم یو کی صد سالہ تقریب میں وزیر اعظم کی تقریر کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں وزیر اعظم نے اے ایم یو کے فرزندوں کو قوم کی تعمیر اور آزادی کی جدوجہد میں ان کے کردار کے لئے خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اس طرح کے تعاون کے لئے اے ایم یو کو ہندوستان کے آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت ’قومی اہمیت کے ادارے‘ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ بیگم عزیز النساء ہال کی پرووسٹ پروفیسر صبوحی خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور جدوجہد آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والی عظیم شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ریذیڈنٹ وارڈن محترمہ رفیدہ صدیقی پروگرام کی کوآرڈنیٹر تھیں۔ تقریب کی نظامت ادبی و ثقافتی وارڈن ڈاکٹر فوزیہ فریدی نے کی۔ محترمہ رباب خان نے شکریہ ادا کیا۔ ہال کے رہائشی اور غیر رہائشی وارڈن، طلبہ اور دیگر نے فیس بک لائیو کے ذریعے بڑی تعداد میں خطبہ میں شرکت کی۔