زین العابدین: شکاری سے جنگلات کے محافظ تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 24-11-2021
زین العابدین: جانوروں کے شکارسے جنگلات کے محافظ تک
زین العابدین: جانوروں کے شکارسے جنگلات کے محافظ تک

 

 

 دولت رحمان/ گوہاٹی

جس طرح وقت لمحہ بہ لمحہ بدل جاتا ہے، اسی طرح انسان کے خیالات اور رجحانات بھی مستقل تبدیل ہوتے رہتے ہیں، کبھی وہ تشدد پسند بن جاتا ہے تو کبھی وہ عدم تشدد کی تبلیغ و اشاعت میں لگ جاتا ہے۔ایسی ہی ایک کہانی ریاست آسام سے تعلق رکھنے والے ایک شکاری زین العابدین کی ہے، جو کسی زمانے میں تشدد یعنی شکار میں یقین رکھتے تھے،مگرآج وہ عدم تشدد وتحفظ میں یقین رکھتے ہیں۔

لمبے اورسڈول جسم کے مالک زین العابدین کسی زمانے میں ایک بہترین شکاری ہوا کرتے تھے، آج وہ ریاست آسام کے جنگلی حیات کے نجات دہندہ بنے ہوئے ہیں۔ زین العابین کے ہاتھ میں کسی زمانے میں بندوق ہوا کرتی تھیں،آج وہ جنگلی جانوروں کی تحفظ کی بات کرتے ہیں۔

شکارکا پیشہ انہوں نے وراثت میں پایا تھا۔ان کے والد بھی ایک شکاری تھے، جب ان کے والد بندوق لے کر شکار کرنے جایا کرتے تھے تووہ انہیں بہت شوق سے دیکھا کرتے تھےاوروہ بھی ان کے ساتھ شکار پر جانے کے لیے تیار ہوجاتے تھے۔

زین العابین بتاتے ہیں کہ جب میرے والد ڈبرو سائکھوا جنگل میں شکار کرنے جاتے تھے تو میں انہیں بہت غور سے دیکھا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور شکار کو اپنی زندگی کا پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شکار سے وابستہ خطرات اور چیلنجوں نے مجھے بے خوف اور باحوصلہ بنا دیا۔اگرچہ میں نے بطخ اورمرغی وغیرہ کے شکارسے اپنے شوق کی ابتدا کی۔ شروع کے دنوں میں یہ میرا شوق ہوا کرتا تھا، مگر بعد کی زندگی میں یہ میرا پیشہ بن گیا۔

AAAA

 

انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ شوقیہ طور پر شکار کو جایا کرتے تھے، مگرمسلسل جنگل میں جانے کی وجہ سے وہ بھی شکاری بن گئے۔ مگران کی زندگی میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے ان کی زندگی کے رُخ کوبدل دیا۔

پہلا واقعہ 1991 -1992 کے درمیان کا ہے، جب کہ ریاست آسام میں عسکریت پسند تنظیم الفا(ٗULFA) کے خلاف فوج کے پہلے آپریشن کے دوران پیش آیا۔

زین العابدین نے کہا کہ میری ملاقات ہندوستانی فوج کے ایک سینئر افسر سے ہوئی۔وہ آرمی افسر بھینس کا سینگ چاہتا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ جنگل میں بہت سی بھینسوں کی سینگ پڑے ہوئے مل جائیں گے، ان میں سے وہ کسی کو بھی لے سکتے ہیں۔

تاہم فوجی افسر نے اصرار کیا کہ ایک زندہ جنگلی بھینس کو گولی مارکر اس کا سینگ حاصل کیا جائے۔

زین العابدین نے کہا کہ کسی فوجی افسر کی بات کا انکار کرنا ان دنوں مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔اس لیے میں نےفوجی کی خواہش کوپورا کرنے کے لیے ایک زندہ بھینس کو گولی مار دی۔ جب گولی مار کر اس کا سینگ حاصل کیا گیا تو مجھے پتہ چلا کہ جنگلی بھینس حاملہ تھی۔

awaz

زین العابدین نے کہا کہ یہ میری زندگی کا سب سے زیادہ دردناک واقعہ ہے، یہ میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی، جس پر مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔اس کے بعد میں نے اس پیشے کو تُرک کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سانحہ کے کچھ دنوں بعد زین العابدین کی ملاقات نارائن سی شرما سے ہوئی،اس سے بھی وہ متاثر ہوئے۔سن 1992 میں نارائن سی شرما جنگل کے رینج افسر کی حیثیت سے ڈبرو سائکھوا آئے۔ وہ بہت ہی ایماندر افسر تھے، انہیں جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے یہاں تعینات کیا گیا تھا۔

زین العابدین نے بتایا کہ نارئن سی شرما نے ریاست آسام کے اندر بے شمار لوگوں کو زندگیوں میں تبدیلی لائی۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ جب وہ آئے تو انہوں نے علاقے کے تمام لوگوں سے رابطہ کیا اور ایک پروگرام کے دوران بہت جنگلی تحفظات کے تعلق سے بہت سی باتیں بتائیں۔

انہوں نے بتایا کہ شرما جنگلی جانوروں اور ماحولیاتی نظام کے اندر ان کی اہمیت پر سلائیڈ دکھایا کرتے تھے اور اس سے متعلق معلومات فراہم کرتے تھے۔ شرما کے روابط میں آنے کے بعد زین العابدین جنگلی تحفظات میں دلچسپی لینے لگے۔انہیں بھی احساس ہوا کہ وہ بھی جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

زین العابدین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ نارائن سی شرما کا ان کی زندگی میں اہم کردار ہے، جنہوں نے انہیں جنگلی حیات کا نجات دہندہ بنا دیا۔

زین العابدین کہتے ہیں کہ ریاست آسام کے اندر مختلف دیہی علاقوں کے لوگ ہاتھیوں سے پریشان رہتے تھے، وہ کبھی بھی حملہ کردیا کرتے تھے، ان ہاتھوں سے دیہات کے لوگوں کو محفوظ کرنے میں بھی نارائن سی شرما نے اہم ذمہ داری نبھائی۔

انہوں نے بتایا وہ 1998 میں ایک شام تھی، جب شرما مجھے اپنی جگہ پر تعینات کروہ خود  ایک پاگل ہاتھی کو پکڑنے کے لیے چل پڑے، جس نے گاوں والوں کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ہاتھی کو پکڑنے گئے تھے، مگراس پاگل ہاتھی نےانہیں اپنے پاؤں کےنیچے کچل دیا۔اس طرح ان کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ شرما کی موت نے مجھےاندرسے ہلا کر رکھ دیا،تاہم میں نے ایک نئے عزم کے ساتھ جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنا شروع کردیا۔ میرا کام دراصل نارائن سی شرما کے خواب کی تعبیرہے۔

A

 اپنے کام کو منظم انداز میں کرنے کے لیے زین العابدین نےایک غیر سرکاری تنظیم ڈبرو سائیکھوا کنزرویشن سوسائٹی قائم کی اورپھر اس کے بینر تلے کام کرنے لگے۔

نارائن سی شرما کی موت کے بعد ان کا سفر جاری رہا، وہ اپنے این جی او کے تحت مختلف علاقوں میں جانے لگے اور بیداری کیمپ وغیرہ منعقد کرکے لوگوں کو ماحولیات اور جنگلی جانوروں کے تحفظ کے بارے میں بتانے لگے۔

زین العابدین نے آوازی دی وائس سے کہا کہ میں ہمیشہ محکمہ جنگلات کے افسران سےایک بات ضرور کہتا ہوں کہ وہ مقامی لوگوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں۔ اگروہ تعلیم یافتہ ہو جائیں گے تو انہیں روزی روٹی کمانے کا ایک بہتر ذریعہ مل سکتا ہے، اگر انہیں بہتر روزگار مل جائے گا تو وہ یقینی طور پر شکار نہیں کریں گے۔

زین العابدین نےبہت سے مقامی نوجوانوں کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے،اس سے ان نوجوانوں کے روزگار کا بھی بندوبست ہوگیا ہے۔ یہ مقامی نوجوان عام دنوں میں یومیہ 300 روپیہ کماتے ہیں۔اس کےعلاوہ سیاحت کے زمانہ میں وہ یومیہ1200 روپیہ تک کما لیتے ہیں۔

 زین العابدین کو امید ہے کہ بہت جلد ایسا وقت آنے والا ہے، جب ریاست آسام اور اس سے متصل علاقوں میں شکار کا خاتمہ ہو جائے گا۔

زین العابدین نےآخرمیں کہا کہ میں زندگی کی آخری سانس تک جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرتا رہوں گا، یہی میری زندگی کا اولین مقصد ہے۔