ادیبوں کا روزہ اور رمضان

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 30-03-2024
 ادیبوں کا روزہ اور رمضان
ادیبوں کا روزہ اور رمضان

 

ڈاکٹر عمیر منظر 
شعبۂ اردو 
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس ۔لکھنؤ
 
‘سحرگاہی’ کے نام سے آل انڈیا ریڈیوکا ایک مقبول عام پروگرام تھا ،جس میں حمد ونعت کے علاوہ رمضان سے متعلق ممتاز ادیبوں اور شاعروں کی گفتگو بھی ہوتی ۔وہ اپنے بچپن کے رمضان کی پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے تھے ۔سحر گاہی کے اس پروگرام میں خواجہ حسن ثانی نظامی ،جناب سید حامد ،پروفیسر محمد حسن ،قرۃ العین حیدر،پروفیسر صغرا مہدی ،پروفیسر شمیم حنفی ،پروفیسر ظفر احمد نظامی،پروفیسر اخترالواسع اور ڈاکٹر تابش وغیرہ شریک ہوتے تھے ۔ان میں سے بعض سحر گاہی پروگرام کو مجھے بھی سننے کا موقع ملا ۔ ملک کے مختلف حصوں میں سحر وافطارکے وقت کیا کیا انتظام ہوتے تھے اور موسم کے لحاظ سے کیا کیا تیاریاں ہوتی تھیں، ان سب کے حوالے سے نہایت عمدہ گفتگو سننے کو ملتی ۔تاریخ کا یہ بھی ایک حصہ ہے ۔اسی پروگرام سے معلوم ہوا کہ دلی میں افطار کے وقت جامع مسجد کے مینارہ پر روشنی کی جاتی تھی حالانکہ اب دلی میں افطار کے لیے سائرن بجایا جاتا ہے ۔ ممکن ہے آل انڈیا ریڈیو کے ریکارڈ روم میں یہ گفتگو اب بھی محفوظ ہو بہر حال آل آنڈیا ریڈیو کے ریکارڈ روم میں ادب و تاریخ کے ایک سے ایک نادر خزانے ہیں۔چونکہ اردو سروس میں ایک عرصہ سے ریکارڈنگ کا سلسلہ موقوف ہے اس لیے ممکن ہے اس رمضان میں پرانی ریکارڈنگ سے کام چلایا جارہاہو۔رمضان اور روزوں سے متعلق اردو کے نثری ادب میں بھی ادیبوں نے بہت کچھ لکھ رکھا ہے۔ اردو کے نثری سرمایہ میں رمضان اور روزہ کاذکر مختلف انداز سے آیا ہے۔افسانوی ادب یعنی ناول اور افسانوں میں کہیں اس مہینے کو روحانیت سے تعبیر کیا گیا ہے تو کہیں اسے دیگر حوالوں سے پیش کیا گیا ہے ۔ البتہ غیر افسانوی نثر میں بیشتر ادیبوں نے اپنے احوال رقم کیے ہیں ۔مذہبی شخصیات کی طرح ادیبوں کے یہاں رمضان یا روزوں کا اس طرح کا احترام نہیں ملتا۔نہ ان کے معمولات ہی احترام و عقیدت کے ہوتے ہیں بلکہ انھوں نے اس ماہ کو جس طرح گذارا اسی انداز میں پیش کیا ہے ۔ممکن ہے اس رویے پر بعض لوگ افسوس کا اظہار کریں مگر ان تحریروں سے رمضان کے تئیں ایک عام بیداری کا اندازہ ضرور ہوتا ہے ۔رمضان شروع ہوتے ہی بہت سی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں،جس کا لحاظ کیا جاتاہے۔جہاں گیر کے حوالے سے ایک واقعہ عام طورپر کتابوں میں ملتا ہے کہ وہ رمضان کا چاند دیکھ کر عبادت و اطاعت کے لیے سرگرم ہوجاتا ۔اور شراب نوشی بالکل ترک کردیتا مگر رمضان ختم ہوتے ہی سارے سلسلے بحال ہوجاتے تھے۔ جہاں گیر نے عیدکا چاند دیکھ کر اپنی بیگم کو مخاطب کرکے یہ مصرعہ پڑھا 
ہلال عید براوج فلک ہویداشد
نورجہاں نے برجستہ اس کا جواب دیا 
کلید مے کدہ گم گشتہ بود پیدا شد
ہلال عید کنجی کی طرح ہوتا ہے یعنی میکدہ کی چابھی گم ہوگئی تھی جو عید کا چاند ہوتے ہی مل گئی ۔پروفیسرمہتاب حیدر نقوی کے حوالے سے پروفیسر سراج اجملی نے بتایا کہ آشفتہ چنگیزی بھی اسی جہانگیری طریقے پر عامل تھے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ایک بڑا طبقہ اسی جہاں گیری طریقے کا عامل ہے ۔ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں میں رمضان کے حوالے سے ایک الگ ہی رنگ نمایاں ہوتا ہے ۔اس کی جستہ جستہ مثالیں یہاں پیش کی جارہی ہیں۔روزوں کے حوالے سے مرزا غالب کے واقعات اور بعض اشعار بہت مشہور ہیں ۔ان میں کہیں انھوں نے اپنے حالات کی جھلک پیش کی ہے تو کہیں ان کی ذہانت اور طبیعت کا خاص رنگ نمایاں ہے ۔انھیں میں ہے کہ ایک مرتبہ جب ماہ رمضان گذرچکاتو بہادر شاہ نے مرزا سے پوچھا کہ ‘‘مرزا تم نے کتنے روزے رکھے ’’۔مرزا نے جواب دیا ‘‘پیرومرشد ایک نہیں رکھا’’
ادا جعفری نے اپنی خود نوشت ‘‘جو رہی سو بے خبری رہی’میں اس ماہ کا تعارف اس طرح کراتی ہیں :
بدایوں میں ہمارے گھر رمضان کا مہینہ بڑی شان و شوکت سے آتا تھا۔شعبان کے دوسرے تیسرے ہفتے ہی سے رمضان کے خیر مقدم کی تیاریاں شروع ہوجاتیں،سویاں اور کچھ دوسرے پکوان بڑے اہتمام سے تیار کروائے جاتے ساتھ ہی روزے کے فضائل کا تذکرہ رہتا۔بزرگوں کی نمازیں طویل ہوجاتیں ۔ رمضان میں عموماً گھر کے چھوٹے بڑے سب روزہ رکھتے تھے۔محلے کی مسجد میں روزانہ افطار ی جاتی ۔(ص ۳۷)
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی عام شہرت ایک ناظم مشاعرہ کی ہے ۔انھوں نے اپنی خود نوشت رقص شرر میں اپنے بچپن کے دنوں کی یاد میں اس ماہ کا نقشہ کھینچا ہے ۔واضح رہے کہ ان کے والد مولانا حسین احمد مدنی سے بیعت تھے اور ملک زادہ منظور احمد کے بقول انھیں نماز ،روزہ اور تلاوت میں ایک لذت ملتی تھی۔ملک زادہ منظور احمد گورکھ پور میں اپنے بچپن کے رمضان کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں :
‘‘تراویح ہورہی ہے ۔قرآن ختم ہونے والا ہے ۔مسجد سجائی گئی ہے ۔چراغاں ہورہا ہے ۔ مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں ۔قفیر گارہے ہیں ۔سحری کھائی جارہی ہے ....روزے نماز کا چرچا حد سے زیادہ ہے’’ ۔(ص۱۶)
سر رضا کی خود نوشت اعمال نامہ کا شمار اردو کی ابتدائی خود نوشتوں میں ہوتا ہے ۔اس میں انھوں نے ‘‘روزہ کی تاریخ’’ کے عنوان سے اپنے روزہ رکھنے کا احوال لکھا ہے ۔اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سحری نہیں کرتے تھے بلکہ سوتے وقت چائے پی لیا کرتے تھے ۔وہ لکھتے ہیں:
‘‘سہارن پور کے قیام تک میں رمضان شریف کے پورے روزے رکھتا تھا ۔ مسوری جاکر بھی کچھ دن تک اس وضع کو نباہا ۔مگر پہاڑ پر رہ کر بھوک خوب لگتی تھی۔ٹھالی آدمی ہو تو دوسری بات ہے کسی نہ کسی طرح دن کاٹ دے۔ یہاں یہ حالت تھی کہ دن کے سات گھنٹے مجھے کام کرنا پڑتا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ میں گنڈے دار روزے رکھنے شروع کردیے ۔اسی زمانے میں ایک دن روزہ رکھا کہ اتفاق کی بات کہ بارش ہوئی اور خوب ٹھنڈ ہوگئی ۔میرا طریقہ بہت زمانے سے یہ ہے کہ جتنے روزے رکھنے ہو ں بغیر سحری کھائے رکھتا ہوں ۔سوتے وقت چائے کی دو پیالیاں البتہ پی لیتا ہوں ۔اس روز دوپہر سے آنتوں نے قل ہواللہ پڑھنا شروع کردی...سہ پہر کو میرے سر میں اس شدت کا درد ہوا کہ آج تک یاد ہے ۔ (ص۲۱۹)
سر رضا علی کے درد سر کا واقعہ بھی خوب ہے ۔انھوں نے جب اپنے دوستوں کو بتایا کہ روزہ بہلانے کی غرض سے انھوں نے شطرنج کی بازی جمائی ۔مگر سہ پہر تک جاتے جاتے سر میں نہایت شدید درد شروع ہوگیا۔ کاکوری کے رہنے والے منشی ارتضی علی اس زمانے میں دہرا دون میں آب کاری محکمہ کے انسپکٹر تھے ،شعر خوب کہتے تھے ۔جیسے ہی انھیں اس واقعہ کا علم ہوا انھوں نے ایک نظم کہہ ڈالی ۔نظم تو نہیں ملتی مگر سرضا علی کو مادہ تاریخ والا مصرعہ یاد رہ گیا ۔
پئے تاریخ پوچھا کیا رضا کا پہلا روزہ ہے 
‘‘کیا رضا کا پہلا روزہ ہے’’ سے ۱۳۲۴ نکلتے ہیں ۔
اس طرح کی دلچسپ باتیں ادیبوں اور سوانح نگاروں نے خوداپنے بارے میں لکھی ہیں ۔یعنی اپنے عمل کی گواہی خود دی ہے ۔اردو کے مشہور استاد ڈاکٹر اسلم پرویز نے اپنی خود نوشت ‘میری دلی ’میں رمضان کے اپنے بعض معمولات کو بھی رقم کیا ہے ۔ انھیں کی زبانی ملاحظہ فرمائیں،وہ لکھتے ہیں :
‘‘رمضان کے مہینے میں ہر روز دن میں چاہے میں کہیں بھی ہوں ،عصر کے بعد گھر میں موجود رہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ افطاری تیار کرنے میں ثریا کا ہاتھ بٹاتا ہوں ۔ افطار کا دسترخوان لگاتا ہوں اور پابندی کے ساتھ پورے رمضان بیوی کے ساتھ افطار کرتاہوں جسے دلی کی زبان میں روزہ کھولنا کہتے ہیں ۔اسی طرح سحری کے وقت میں ثریاسے پہلے اٹھ کر ان کی سحری کا سامان تیار کرتا ہوں اور انھیں سحری کراتا ہوں ’’۔(ص ۲۲۰)
روزہ رکھنے کے معاملے میں ڈاکٹر اسلم پرویز مرزا غالب کے پیرو ہیں ۔بقول ڈاکٹر اسلم پرویز:
‘‘ایک عجیب بات بلکہ میں تو یہی کہوں گا بڑی بات یہ ہے کہ میں ایک بھی روزہ نہیں رکھتااور سال بھر میں سوائے عیدین کے کوئی نماز ادا نہیں کرتالیکن میری بیوی نے جو ارکان مذہبی کی انتہائی سختی سے پابند ہیں،مجھ پر کبھی یہ زور نہیں ڈالا کہ میں روزے رکھوں یا نمازیں پڑھوں ۔شاید وہ یہ سوچتی ہوں کہ حقوق العباد کی ادائیگی ہی میری بخشش کرادے گی’’۔(۲۳۳)
جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات اردو کی مشہور خود نوشتوں میں ہے۔جوش کے عقائد و افکار کسی سے پوشیدہ نہیں ۔انھوں اپنی خود نوشت میں رمضان کا ذکر بہت اہتمام سے کیا ہے ۔ان کے یہاں رمضان کی اصل دھوم روزوں سے نہیں بلکہ افطار سے تھی ۔وہ لکھتے ہیں: 
‘‘جہاں تک روزہ رکھنے کا تعلق ہے رمضان ہمارے گھر آتا ہی نہیں لیکن جہاں تک افطار کا تعلق ہے ،رمضان ہمارے گھر دھوم دھام سے آتا تھاکہ اور کہیں آتا ہی نہ ہوگا،عقائد کے اعتبار سے میرے آباء اجداد اس قدر پکے مسلمان تھے کہ تمام دینی انجمنوں کو جی کھول کر ہر ماہ چندے دیا کرتے تھے،اور اسلام کے نام پر تن من دھن قربان کردینے پر ہروقت آمادہ رہتے تھے۔لیکن اعمال کے اعتبار سے رئیس زیادہ اور اور مسلمان بہت ہی کم تھے’’۔(ص ۸۸) 
جوش کے یہاں افطار کا خاصا اہتمام تھا ۔اور اس کے لیے بڑی تیاریاں کی جاتی تھیں ۔وہ لکھتے ہیں: 
‘‘روزہ نہ رکھنے کے باوجود گھر میں دس بارہ قسم کی افطاری پکائی جاتی تھی،اور اذان سے پیشتر مردانے کے تختوں کے چوکوں پر چن دی جایا کرتی تھی،اور کم و بیش ڈیڑھ سو اقرباو احباب اور ملازمین ،ہمارے گھر روزہ افطار کیا کرتے تھے تھے،اقرباو احباب میں اکثریت ہوتی تھی روزہ خوروں کی البتہ نوے فی صد ملازم روزہ رکھتے تھے،افطار کے بعد شاعری کی محفل گرم ہوجایا کرتی تھی’’۔
خود نوشت کی یہ سطریں اقبال کے جواب شکوہ کی یاد دلاتی ہیں ؂
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب 
زحمت روزہ جو رکھتے ہیں گورا تو غریب 
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب 
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب 
امرا نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے 
زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے 
افطار کے حوالے سے علامہ اقبال کا ایک مشہور قصہ یاد کرلینا ضروری ہے ۔
‘‘ماہ رمضان میں ایک بار پروفیسر حمید احمد خاں ،ڈاکٹر سعیداللہ اور پروفیسر عبدالواحد ،علامہ اقبال کے گھر پر حاضر ہوئے کچھ دیر بعد مولانا عبدالمجید سالک اور مولانا غلام رسول مہر بھی تشریف لے آئے ۔افطاری کے وقت علامہ نے گھنٹی بجاکر نوکر کو بلایا اور اس سے کہا ۔
‘‘افطاری کے لیے سنترے ،کھجوریں،کھچ نمکین اور میٹھی چیزیں جو ہوسکے سب لے آؤ’’
سالک نے عرض کیا 
‘‘افوہ! اتنا سامان منگوانے کی کیا ضرورت تھی’’؟
علامہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔‘‘سب کچھ کہہ کر ذرا رعب تو جمادیں ،کچھ نہ کچھ تو لائے گا’’ ۔
زندہ رود میں جاوید اقبال نے سحری کا ایک واقعہ لکھا ہے :
‘‘آخری چند سالوں میں غالباً رمضان کے مہینے میں ایک بار ایک چور جاوید منزل میں گھس آیا لیکن سحری کے وقت ملازموں نے اسے پکڑلیا ۔اس زمانے میں شیخ عطا محمد کے منجھلے فرزند شیخ امتیاز احمد اپنے اہل وعیال سمیت یہاں مقیم تھے ۔شیخ امتیاز احمد نے چور کو تین چار تھپڑ رسید کیااور اس کی شلوار کی جیبوں میں سے چوری کی ہوئی اشیا جو کہ معمولی سی تھیں اور جن میں راقم کی کھلونا پستول پستول بھی تھیں برآمد کرلیں ۔انھوں نے چور کو رسی سے باندھ رکھا تھا اور تھانے میں اطلاع بھی بھیجوادی تھی۔چور ایک دبلا پتلا نحیف اور مسکین سا نوجوان تھاجو اقبال کی خواب گاہ سمیت گھر کے تمام کمروں میں پھرتا رہاتھا۔جب اقبال کو یہ سب معلوم ہوا تو چور کی حالت پر ترس کھا کرحکم دیا کہ اسے روٹی کھلوا کر چھوڑدیا جائے چنانچہ اسے سحری کے وقت پکے ہوئے پراٹھے اور سالن کھلوایا گیا۔اتنے میں پولیس آگئی اور چور کو پکڑ کر لے گئی ۔(زندہ رود۔ڈاکٹر جاوید اقبال ۔۶۷۴)
مولانا مجیب اللہ ندوی نے اپنی خود نوشت ‘نقوش زندگی ’’میں ۱۹۴۲ کے رمضان کاایک واقعہ لکھا ہے کہ مولانا محمد الیاس کے ہمراہ ندوۃ العلما سے ان کے ساتھیوں پر مشتمل ایک جماعت دلی کے لیے روانہ ہوئی ۔کچھ دنوں تک یہ لوگ جامع مسجد کے علاقے میں لوگوں کو دین و ایمان کی باتیں بتاتے رہے ۔ایک روز مولانا محمد الیاس نے ان لوگوں بلایا اور کہا کہ اب ایک رات جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گذارو۔بارہ آدمیوں کی ایک جماعت جس کے امیر میاں جی موسی تھے،عصر کی نماز کے بعد انھیں رخصت کیاگیا۔افطار سے کچھ پہلے یہ جماعت جامعہ ملیہ کی مسجد میں فروکش ہوئے ۔ مسجد اس وقت ٹین شیڈ میں تھی۔ اگلے دن فجر کے بعد گشت وغیرہ کا سلسلہ رہا ۔تقریباً پچیس تیس طلبہ و اساتذہ جمع ہوئے ۔امیر میاں جی موسی جو کہ میوات کے رہنے والے تھے ان کی تقریر ہوئی۔ڈاکٹر ذاکر حسین بھی تقریر سننے والوں میں شامل تھے ۔تقریر کے بعد ڈاکٹرذاکر حسین نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا :
‘‘اس اہل علم کے مجمع میں جس شخص نے ابھی تقریرکی ہے وہ بہت ہی معمولی پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں مگر انھوں نے اپنی بات جس اعتماد کے ساتھ اہل علم کے سامنے رکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی حق بات ہے ،اس لیے ہم سب کو اس میں حصہ لینا چاہیے،اس اعتماد کے ساتھ حق بات ہی کہی جاسکتی ہے’’ ۔ (ص۶۵)
وطن کی آزادی کے لیے مولاناحسرت موہانی متعدد بار جیل جانا پڑا۔انھیں قید بامشقت کی سزا بھی ہوئی ۔ جیل کے واقعات کو انھوں نے مشاہدات زنداں کے نام سے مرتب کیا۔انھوں نے جیل میں رمضان کا سخت مہینہ بھی گزارا۔جہاں کسی طرح کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔حسرت نے لکھا ہے کہ اس مہینے میں مسلمان قیدیوں کے جذبے اور دین کے تئیں ان کی سرشاری کو دیکھ کر فرنیگیوں نے بھی اپنے اندر کچھ نرمی محسوس کی ۔ حسرت نے لکھا ہے کہ اس طرح کے مواقع پر مسلم قیدیوں کا خیال انگریز مطلق نہیں کرتے تھے تن ڈھانکنے کے لیے پورے کپڑے نہیں ملتے مگر اس کے باوجود نماز ادا کی جاتی ۔حسرت کا ایک مشہور شعر اسی واقعہ کی یادگار ہے ۔
کٹ گیا قید میں ماہ رمضاں حسرت 
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا 
ملک کے مشہور صحافی حفیظ نعمانی نے ۱۹۶۵ میں ندائے ملت (لکھنو)کا مسلم یونی ورسٹی نمبر نکالا ۔دراصل اس وقت کے وزیر تعلیم کریم بھائی چھاگلااور وائس چانسلر علی یاور جنگ نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نام سے لفظ مسلم نکالنے کی مہم شروع کی تھی اور مئی ۱۹۶۵ میں حکومت سے ایک آرڈی نینس جاری کرانے میں بھی کام یاب ہوگئے تھے ۔اسی سلسلے میں ندائے ملت کے مسلم یونی ورسٹی نمبر کو نہ صرف ضبط کیا گیابلکہ حفیظ نعمانی(معاون ایڈیٹر ندائے ملت ) اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا ۔تقریباً ایک برس بعدرہائی کے بعد روداد قفس کے نام سے جیل میں گزارے گئے دن کوقلم بند کیا ۔چونکہ جیل میں رمضان المبارک کا مہینہ بھی گزرا تھا اس لیے اس کی روداد بھی اس میں شامل ہے ۔حفیظ نعمانی لکھتے ہیں :
‘‘ماہ مبارک کے پہلے اور دوسرے دن ہی ہماری بیرک میں جو فضا بنی ،اس کا پوری جیل میں چرچا ہوگیا۔ہر جگہ ایک ہی تذکرہ تھا کہ جیل میں آج تک کبھی قرآن شریف اس طرح نہیں پڑھا گیا اور نہ نمازوں کا یہ اہتمام دیکھا گیا’’۔(ص۱۰۴)
رمضان سے عید تک کی روداد تقریباً بیس صفحات پر اس طرح بیان کی گئی ہے تمام باتیں بالکل آئینے کی طرح سامنے آگئی ہیں ۔یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اس موقع پر جیل کے تمام قیدیوں کا بھر پور تعاون انھیں حاصل رہا ہے اور بہت سے وہ قیدی جن کے ناموں اور عادات واطوار سے حفیظ نعمانی مسلمان نہیں سمجھ رہے تھے جب انھیں تراویح اور افطار میں دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے ۔روداد قفس میں جیل کی افطار کا بھی ایک منظر ملاحظہ کریں ۔
‘‘اپنی بیرک میں واپس آیا تو یہ دیکھ کر روح وجد کرنے لگی کہ احاطہ کے کنارے نیم کے درخت کے نیچے سات کمبل بچھے ہوئے ہیں اور ان پر سفید دھلی ہوئی چادریں لگی ہوئی ہیں ،جس پر تمام روزے دار بیٹھے ہیں اور افطار کا سامان درمیان میں سجاہوا ہے ۔افطار کے اس سامان میں اعلی سے اعلی سامان سے لے کر بھنے ہوئے جیل کے چنے تک موجود تھے ۔گھڑی کی سوئی پانچ بج کر تیس منٹ پر پہنچی کہ موذن نے اذان شروع کردی’’ ۔(ص ۱۰۲)
عید کے چاند کے حوالے سے بے شمار شعرکہے گئے۔یہاں تک کہ عیدکے چاندمیں محبوب کو بھی دیکھ لیا گیا ہے لیکن رمضان کے چاند کا ذکر شعرا کے یہاں کم ملتا ہے ۔عبداللہ ندیم تازہ کار اور تخلیقی حوالوں سے بہت زرخیز طبیعت کے مالک ہیں ان کے شعر پر یہ گفتگو تمام ہوتی ہے۔
تیرے ابرو کا کیا بیان کریں 
پہلے روزے کا چاند ہو جیسے