آئین ہند بنانے والی ڈرافٹ کمیٹی کےواحد مسلم ممبر کون تھے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-01-2023
آئین ہند بنانے والی ڈرافٹ کمیٹی کےواحد مسلم ممبر کون تھے؟
آئین ہند بنانے والی ڈرافٹ کمیٹی کےواحد مسلم ممبر کون تھے؟

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

سرسید محمد سعد اللہ کا نام آپ نے سنا ہے؟ شاید کبھی نہ سنا ہو۔ اصل میں وہ اپنی اہم خدمات کے باوجود بہت کم چرچا میں رہے اور کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ اصل میں آئین ہند بنانے کے لئے جو ڈرافٹ کمیٹی بنائی گئی تھی اور جس کے چیئرمین ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر تھے، اس کے  ممبران میں واحدمسلم تھے سرسید محمد سعداللہ۔ سعداللہ کس قدر اہم تھے کہ انہیں ڈرافٹ کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا اس پر روشںی ڈالنے سے پہلے آئیےجانتے ہیں آئین ہند بنانے والی اسمبلی کے بارے میں چندباتیں۔     

دستورسازاسمبلی

۔9 دسمبر 1946 کو دستور ساز اسمبلی کی تشکیل ہوئی جس کے اجلاس کا مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا۔دودن بعد 11 دسمبر کو ڈاکٹر راجیندر پرساد کو اس کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ اس میں ابتدائی طور پر کل 389 ارکان تھے، جو تقسیم کے بعد کم ہو کر 299 رہ گئے تھے۔

جنوری22 . 1947 کو قرارداد مقاصد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ اسی سال 22 جولائی کوقومی پرچم اپنایا گیا۔15 اگست 1947کو تقسیم ملک کے ساتھ آزادی ملی۔

awaz

اگست 1947،29کو ڈرافٹنگ کمیٹی کا تقرر کیا گیا جس کے چیئرمین ڈاکٹر بی آر امبیڈکر تھے۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میں کے ایم منشی، محمد سعد اللہ، الادی کرشنا سوامی ایر، گوپالا سوامی آیانگر، این مادھو  راؤ،ڈی پی کھیتان اور ٹی ٹی کرشنماچاری شامل تھے۔

   سن 1949 میں نومبر کی بائیس تاریخ کو 'ہندوستان کا آئین' اسمبلی میں منظور ہوا اور 24 جنوری 1950کودستور ساز اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا۔جب کہ 26 جنوری 1950کو'آئین ہند' 2 سال، 11 ماہ اور 18 دنوں کے بعد نافذ ہوا۔

سرسید محمد سعد اللہ کون تھے؟

 سرسید محمد سعد اللہ ڈرافٹ کمیٹی کے ممبر تھے مگراس سے پہلے بھی وہ ملک میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ وہ برطانوی ہندوستان میں آسام کے وزیر اعظم رہ چکےتھے۔ وہ 1919 میں گوہاٹی میونسپلٹی کے چیئرمین اور 1924 سے 1934 تک آسام کے وزیر تعلیم و زراعت بھی رہے تھے۔ سعداللہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ قانون داں تھے۔

سید محمد سعد اللہ 21 مئی 1885 کو گوہاٹی میں ایک روایت پسند آسامی مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے اور1955 میں انتقال کیا۔ ان کی تعلیم کاٹن کالج، گوہاٹی اور پریزیڈنسی کالج، کلکتہ میں ہوئی تھی۔انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے بعد گوہاٹی میں وکالت شروع کی اور جلد ہی بطور وکیل اپنی شناخت بنائی۔وہ کلکتہ ہائی کورٹ میں بھی ایک مدت تک پرکٹس کرتے رہے۔ وہ گوہاٹی میونسپلٹی کے چیئرمین بنے اور شیلانگ میں قانون ساز کونسل کے رکن کے طور پر نامزد ہوئے۔ آسام اپریل 1912 میں چیف کمشنر صوبہ بنا۔ سعد اللہ نے جوش و خروش سے کونسل کے مباحثوں میں حصہ لیا، اور آسام کے لوگوں کے مفاد کے معاملات پر آزادانہ اظہار خیال کیا۔

 وہ جلد ہی صوبہ آسام میں ایک اہم شخصیت بن گئے۔ انہوں نے محض ایک دہائی کی جدوجہد کے بعد وکیل کے طور پر شناخت قائم کرلی۔بعد کے دنوں میں انہوں نے کلکتہ ہائی کورٹ میں بھی پرکٹس کی تو ان کے پڑوسیوں اور ہم عصروں میں تب کی نمایاں شخصیات فضل الحق، نواب عطاء الرحمن، بیرسٹر خدا بخش اور نوابزادہ اے ایف ایم عبدالعلی شامل تھے۔

خطابات

وہ برطانوی ہند میں بھی اہمیت کے حامل تھے۔  انہیں 1928 کے برتھ ڈے آنرز میں نائٹ کا خطاب دیا گیا اور 1946 کے برتھ ڈے آنرز میں انہیں نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی انڈین ایمپائر مقرر کیا گیا۔

 سیاسی زندگی

 سیاسی زندگی میں سید محمد سعد اللہ کا آل انڈیا مسلم لیگ سے گہرا تعلق تھا۔ انہوں نے دسمبر 1917 میں کلکتہ میں لیگ کے 10ویں اجلاس میں شرکت کی، اور اس کمیٹی کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں جس نے مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان لکھنؤ معاہدے پر بات چیت کی۔ 1946 میں، انہوں نے پاکستان کے مطالبے میں شرکت کی اور آسام کو پاکستان میں شامل کرنے کی حمایت کی۔ تاہم، تقسیم کے وقت جب آسام نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کی تو وہ آسام میں ہی رہے اور پاکستان ہجرت نہیں کی۔ اسی طرح، آسام کے وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے ایک جدید آسام کی تعمیر میں تعاون کیا تھا۔

awaz

دستورسازاسمبلی اجلاس کا منظر

شخص اور عکس

وہ ایک قابل پارلیمنٹرین، ایک فصیح مقرر، ایک تجربہ کار منتظم اور نظریات میں اعتدال پسند اور آزاد خیال لیڈرتھے۔ سعد اللہ کو جدید آسام کے معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ آسام حکومت کے سربراہ کے طور پر، انہوں نے اچھی منصوبہ بندی کی اور ترقیات کے پلان تیار کئے۔ انہوں نے صنعتوں کے فروغ میں خصوصی دلچسپی لی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بنگال سے کسانوں کی نقل مکانی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی تاکہ  آسام میں زرعی ترقی ہو اورجوٹ کی کھیتی کو متعارف کرایا جائے۔ ان کے ناقدین ان پر آسام میں بنگالی مسلمانوں کو جان بوجھ کر آباد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

محمد سعد اللہ کو سخاوت، ایمانداری اور قابلیت کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔  انہوں نے شمال مشرقی خطے کے قبائلی لوگوں کے لئے بھی کام کیا تھا اور اپنی پہلی کابینہ میں ہی انہوں نے ایک قبائلی رہنما جے جے ایم  نکولس رائے کو شامل کیا تھا۔ وہ اپنے تجربے، قابلیت اور ایمانداری کے سبب بہترین شخصیت سمجھے جاتے تھے۔