ہماری تہذیبی وراثت کو صوفیوں نے کیسےمالا مال کیا؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 31-05-2023
ہماری تہذیبی وراثت کو صوفیوں نے کیا دیا؟
ہماری تہذیبی وراثت کو صوفیوں نے کیا دیا؟

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014ء میں برطانیہ کے اپنے دورے میں ویمبلے اسٹیڈیم میں ہزاروں کی تعداد میں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا”اسلام میں صوفی روایت طاقتور رہی ہے جو بھی صوفی روایت کو سمجھے گا وہ ہاتھ میں بندوق لینے کا خیال نہیں لاسکتا۔

عام طور پر صوفیہ کو مذہب کی گہری سمجھ رکھنے والا روحانی پیشوا سمجھا جاتا ہے مگر ان کے تعلق سے بس اسی قدر تصور رکھنا ان کے ساتھ ہی نہیں تاریخ کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ اہل روحانیت نے ہماری تہذیب وثقافت کو قوس وقزح کے ہفت رنگ فراہم کرنے میں اہم کردار نبھایاہے۔ وہ محض تصوف وروحانیت کے ہی نمائندہ نہیں تھے بلکہ ہمارے تہذیبی اقدار کے بھی قافلہ سالار تھے۔ وہ دنیا کے جس خطہ میں گئے، اسے اخلاقی قدروں سے ہی مالامال نہیں  کیا بلکہ اس کے تہذیب و تمدن کو بھی رنگارنگ بنانے میں نمایاں رول ادا کیا۔

برصغیر ہندو پاک، بنگلہ دیش میں پروان چڑھنے والی قومی یکجہتی، سماجی ہم آہنگی اور مخلوط تہذیب کو اس وقت تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ یہاں فروغ پانے والے صوفی سلسلوں کو نہیں سمجھا جاتا۔ ان صوفی سلسلوں نے عظیم اسلامی سلطنتوں کی ثقافتی راہوں کے تعین میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دنیا کی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم جانتا ہے کہ جب بھی انتہاپسندانہ مذہبی بالادستی کا غلبہ ہوتا ہے تو تہذیب کا فروغ رک جاتا ہے۔ کسی بھی تہذیب کی ترقی کے لئے دقیانوسی روایات کی بیخ کنی اور آزادانہ و دانشورانہ فکر کے فروغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوروپ سے برصغیر تک ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جہاں سخت سماجی اور مذہبی پابندیوں نے تہذیب کا فروغ روک دیا تھا۔ ہندوستان پر قبضہ کرنے والے مسلم حکمراں بھی اپنے ساتھ مخصوص قسم کے نظریات لائے تھے مگر ان تصورات کے برعکس یہاں کے سماج کوپیار ومحبت کے سانچے میں ڈھالنے کا کام صوفیوں نے کیا۔یہی سبب ہے کہ بادشاہ، عوام کے جسموں پر حکمراں رہے مگر صوفیوں نے ان کے دلوں پر حکمرانی کی۔بادشاہوں نے وہ راستہ اپنایا جو ان کی حکمرانی کو طول دینے کے لئے مناسب تھا، وہیں صوفیوں نے وہ راستہ اختیار کیا جس سے سماج میں پیار ومحبت کو فروغ ملتا اور مختلف ثقافتی اور مذہبی طریقوں کے درمیان ہم آہنگی قائم ہوتی۔صوفیوں نے عرب سے برصغیر تک یہودیوں، عیسائیوں، ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کے پل کا کام کیا۔

اس قسم کے کام مسلمان فاتحین کے مفادات کے خلاف بھی نہیں تھے اور اکثر برداشت کر لئے جاتے تھے۔ یہ صوفیہ،اسلام کے تو عالم تھے ہی ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہودی، عیسائی اور ہندو وبودھ علماء سے بھی ان کے مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی تھی اور ان کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ انھوں نے اپنشد، گیتا، ویدوں اور دوسرے قدیم گرنتھوں میں ”پیغام توحید“کی شناخت کی اور اس نکتے پر اتفاق کی دعوت دی۔ ظاہر پرست علماء کے برخلاف صوفیہ کرام، اسلام کی روح اور قرآنی تعلیمات کی آتما پر زور دیتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ وہ لوگوں کی روحانی اصلاح میں کامیاب ہوتے تھے۔ ہم آج ایسے بہت سے لوگوں کو اپنے گردوپیش دیکھتے ہیں، جن کی لمبی لمبی داڑھیاں ہوتی ہیں، نمازوں کے پابند ہوتے ہیں، پاجامے ٹخنے سے اوپر ہوتے ہیں اور ظاہری حالت سنت کے مطابق ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ان کا دل انسانی ہمدردی سے خالی ہوتا ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔وہ غم گساری سے بے نیاز ہوتے ہیں جو عین تقاضائے سنتِ رسول ہے اور خاکساری سے دور ہوتے ہیں جو آدمیت کا فطری نتیجہ ہے۔ صوفیہ ظاہر کے بجائے باطن کو درست کرنے کا کام کرتے تھے کیونکہ اگر انسان کا باطن ٹھیک ہوجائے تو اس کا ظاہر خود بخود بدل جاتا ہے۔

صوفیہ کے اثرات

          صوفیہ نے برصغیر ہندوپاک کے سماج پر انمٹ نقوش چھوڑے، جن کے اثرات آج بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اس صوفی تحریک نے ہندووں میں ”بھکتی تحریک“ کو جنم دیا۔ بھکتی تحریک میں  شامل ہندو سنتوں نے جہاں ایک طرف ہندووں کے اندر گرنتھوں کے قدیم ”نظریہ توحید“ کو آگے بڑھایا وہیں چھوت چھات اور اونچ نیچ کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ ظاہر ہے کہ یہ اس خطے میں سماجی بدلاؤ کی ابتدا تھی۔ جس ملک میں دلتوں کو "اچھوت" سمجھا جاتا تھا، جہاں انسان کو اس کے کردار نہیں بلکہ برادری کے سبب اعلیٰ یا ادنیٰ سمجھا جاتا تھا،وہاں انسانوں کے اندر مساوات کا تصور پیش کرنا ایک بڑے سماجی انقلاب کی طرف پیش قدمی تھی جس کی ابتدا صوفیہ کی جدوجہد سے ہوئی۔ سکھ ازم کے بانی گرونانک جی کے نظریات تصوف سے انتہا درجہ متاثر تھے اور آج تک سکھ سماج پر اس کے اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ صوفیہ کے زیر اثر اس خطے میں فروغ پانے والی شاعری پربھی ان کی تعلیمات کے اثرات مرتب ہوئے۔ حضرت فرید الدین گنج شکر، امیرخسرو، کبیرداس، ملک محمد جائسی، شیخ باہو،فخرالدین ابراہیم عراقیؔ،بلہے شاہ وغیرہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ فارسی، عربی، اردو، اودھی، بھوجپوری، پنجابی،بنگلہ، آسامی، مراٹھی، تمل، تیلگو، کنڑ،کشمیری، پشتو، بلوچی، سرائیکی سمیت اس خطے کی کوئی ایسی زبان نہیں جس میں صوفیانہ کلام نہ لکھے گئے ہوں اور خدا کی وحدت وکبرائی کے نغمے نہ گائے گئے ہوں۔

قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کرلے

یہ آگ لگتی نہیں ہے لگائی جاتی ہے

روحانی موسیقی اورصوفیہ  

          صوفیہ کا ایک طبقہ روحانی موسیقی کو قلب وروح کو گرمانے کا ذریعہ مانتا رہاہے۔ صوفی موسیقی کی روایت دنیا بھر کے مسلم ملکوں میں چلی آرہی ہے۔ خودعہد نبوی میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا رواج تب بھی تھا۔بعد کے دور میں اگرچہ علماء کا ایک بڑا طبقہ موسیقی کے خلاف رہا مگر صوفیہ کی محفلوں میں اس کا رواج رہا اور برصغیر میں تو صوفیہ کا ایک بڑا طبقہ سماع کا دلدادہ رہا۔ علماء وقت کے اعتراضات کے باوجود اس نے اس پر اصرار کیا۔ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا وصال عین حالت سماع میں ہوا۔ حضرت نظام الدین اولیاء،بعض علماءِ وقت کی مخالفتوں کے باوجود سماع پر مصر رہے۔آپ کے مرید امیرخسرو، موسیقی کے ماہر ہی نہیں تھے، بلکہ اس میدان میں ایجاد واختراع کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔

عہد اکبری کے معروف گویا تان سین کی پرورش حضرت غوث گوالیاری نے کی تھی اور موسیقی کی تعلیم بھی انھوں نے ہی دی تھی۔ اس خطے میں فن قوالی کی ایجاد بھی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ صوفیہ نے یہاں کی تہذیب پر کیسے انمٹ نقوش مرتب کئے۔ یہاں گائے جانے والے راگوں میں ایک ”واتسلیہ رس“ بھی گایا جاتا ہے جو خالص روحانی نغموں کے لئے مخصوص ہے۔ کشمیر کی موسیقی پر خاص ایرانی رنگ بھی صوفیہ کی دین ہے جن کے مبارک قدموں کی بدولت ہی یہاں عظیم سماجی وروحانی انقلاب رونما ہوا تھا۔

مذہب کا جمالیاتی چہرہ ہے تصوف

          حکمراں تو بس حکمراں ہوتے ہیں۔ تاریخ نے بار بار دیکھا ہے کہ ان حکمرانوں نے مذہبی احکام کی تشریح بھی اپنے مقاصد کی برآوری کے لئے کی مگر صوفیہ نے اسلام کا انسانیت نوازجمالیاتی چہرہ عوام کے سامنے پیش کیا۔اس سے سماج کے اندر محبت اور بھائی چارے کو فروغ ملا۔صوفیوں نے تمام مذاہب کا احترام کیا۔ صوفیوں کی سب سے خاص بات تھی، ایک خدا پر یقین رکھنا اور تمام انسانوں کو ایک ہی خدا کا بندہ سمجھنا۔ صوفی فلسفہ کا اصل عنصر "محبت" ہے۔خالق سے محبت اور اس کی مخلوق سے محبت، کیونکہ خالق خود بھی اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور اتنی محبت کرتا ہے جتنی ایک ماں اپنے بچے سے نہیں کرسکتی۔یہی تعلیم انھوں نے لوگوں کو بھی دی، جس سے سماجی ہم آہنگی کو فروغ ملا اور انسانیت نواز جذبات عام ہوئے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیہ کے لئے احترام کا جذبہ ہر طبقے میں پایا جاتا ہے اور اس کا اصل سبب ہے، ان کا درس محبت۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسجدوں میں مسلمان جاتے ہیں، مندروں میں ہند و جاتے ہیں، گرجا گھروں میں عیسائی اور گردواروں میں سکھ جاتے ہیں مگر صوفیوں کے آستانے، وہ جگہیں ہیں جہاں ہر فرقہ، ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ جاتے ہیں۔ان کی درگاہیں آج بھی سماجی ہم آہنگی کو فروغ دے رہی ہیں۔حالانکہ یہ بہتر ہوتا کہ ان کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ان کی تعلیمات توحید، اخوت ومحبت اور ان کی زندگی کے حالات کو فولڈر، کتابچوں اور ویڈیو وآڈیو سی ڈی کی شکل میں زائرین کو پیش کرتے۔اس سے ہمارے معاشرے میں محبت و بھائی چارہ کو فروغ ملتا اور تشدد ودہشت گردی سے پریشان انسانیت کوصوفیہ کی تعلیمات کا سہارا ملتا۔ ہندوستان اور پاکستان سمیت اس پورے خطے میں سماجی ہم آہنگی اور مختلف طبقوں کے اتحاد میں ”تصوف“ کا ایک اہم رول رہا ہے۔

ازل سے ان کی تجلی مری نگاہ میں ہے

یہ جانتا ہوں کہ ان کو جانتا ہوں میں