ہم ہاتھوں میں گیتا اور سینے میں قرآن رکھیں گے ___ غفورالدین میواتی جوگی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-03-2024
ہم ہاتھوں میں گیتا اور سینے میں قرآن رکھیں گے ___ غفورالدین میواتی جوگی
ہم ہاتھوں میں گیتا اور سینے میں قرآن رکھیں گے ___ غفورالدین میواتی جوگی

 

منصور الدین فریدی/ نئی دہلی

 ہم ہاتھوں میں گیتا اور سینے میں قران رکھیں گے

میل  بڑھائیں آپس میں، وہ دھرم ایمان رکھیں گے

سنک بجاؤں گا بھائی چارے کا، امن کی ایک اذان رکھیں گے

ادھر کعبہ رکھوں گا ، ادھر کاشی بھی رکھوں گا

مگر سب سے پہلے اپنا ہندوستان رکھوں گا

 یہ صرف ایک گیت نہیں ، ایک پیغام نہیں،ایک وعدہ ہے بلکہ عہد ہے، جس کا اظہار  مشہور بھاپنگ ساز اور  لوک گلوکارغفور الدین میواتی جوگی نے  آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ان خوبصورت الفاظ میں کیا ہے-جنہیں سنگیت ناٹک اکاڈمی ایوارڈ  2022-23  کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ 6 مارچ کو راجدھانی میں صدر جمہوریہ  اس ایوارڈ سے نوازیں گی_ غفور الدین میواتی جوگی، ایک بزرگ فنکار ہیں جو پانڈوان کا کڑا پیش کرکے اپنے روایتی فن کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ  بلکہ نئی نسل کو بھی اس فن سے روبرو کرا رہے ہیں تاکہ مستقبل میں یہ فن ناپید نہ ہو جائے- پانڈوان کا کڑا کی ابتدا 17 ویں صدی کے میوات سے کی جا سکتی ہے، جو عام طور پر مہابھارت کے واقعات کے ارد گرد مرکوز  ہے۔

غفورالدین میواتی جوگی، دنیا کے واحد فنکار ہیں جو پانڈوان کا کڑا' گاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں سات سال کی عمر میں پانڈوان کا کڑا گانا گانا شروع کیا تھا اور وہ آج بھی گا رہے ہیں۔ وہ راجستھان میں بھرت پور کے دیگ ضلع کے پہاڑی گاؤں کیتھواڑا کی میواتی جوگی برادری میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بدھا سنگھ جوگی بھی سارنگی کے اچھے فنکار  تھے، اپنے والد اور گرو بدھا سنگھ  میواتی جوگی سے یہ خاندانی فن  سیکھا تھا۔

آپ کو بتا دیں کہ ایک غیر معروف روایت، پانڈوان کا کڑا، جس میں 2500 دوہے شامل ہیں، میوات کی جوگی اور میو برادری اسے گاتی ہیں۔ یاد رہے کہ میواتی، اس علاقے کی بولی اور وہ زبان جس میں پانڈوان کا کڑا پڑھا اور گایا جاتا ہے،  یہ بولی ہریانوی اور راجستھانی دونوں سے متاثر ہے_دراصل صدیوں سےمہابھارت کو الگ الگ ثقافتی طرز پرپیش کیا جاتا رہا ہے،پانڈوان کا کڑا (پانڈو کے دوہے) ایسی ہی ایک پیشکش کا نام ہے۔ گیت اور کہانی سنانے کی اس روایت میں فنکار پہلے  دوہا سناتا ہے 

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے غفور الدین جوگی نے کہا کہ یہ فن ہمیں ورثے میں ملا ہے،  میں نے بچپن میں اپنے والد کے ساتھ  اس کی تربیت حاصل کی تھی اب میں اپنے بیٹے شاہ رخ خان میواتی جوگی اور اس کے بیٹے یعنی اپنے پوتے دانش کو بھی یہی فن سکھا رہا ہوں کیونکہ یہ ہماری وراثت کا حصہ ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے گاؤں گاؤں اس فن کو پھیلایا ہے،  اسے اپنی روایت سمجھ کر اس کی حفاظت کی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی راجستھان میں یہ فن زندہ ہے_ یقینا بدلتے دور کے ساتھ نئی نسل کی پسند بھی بدلی ہے لیکن میوزک ایسی طاقت ہے جو ہمیشہ جوڑتی ہے_ ہم نے شادیوں نکاح اور دیگر تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا, لوگوں تک فن پہنچایا اور نئی نسل کو اس سے متعارف کرایا ، ایک پیغام دیا یہی ہماری وراثت ہے ، یہی اثاثہ ہے اور یہی ہماری پہچان ہے

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ غفور الدین میواتی 


کس کے ہیں  احسان مند 

وہ کہتے ہیں میرا قومی سطح پر یا بین الاقوامی سطح پر ابھرنے کا سہرا جے پور وراثت فاؤنڈیشن کے سربراہ ونود جوشی کے سر جاتا ہے، جو پچھلے 20 سال سے راجستھان کی ثقافت کو دنیا میں متعارف کرانے کے لیے بہت ہی منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں، ونود شرما ہی مجھے لندن لے گئے تھے جہاں میں نے الزبتھ ہال میں پرفارمنس دی تھی جسے انگریزوں نے بہت سراہا تھا، میں ان کا ہمیشہ احسان مند رہوں گا انہوں نے اپنی زندگی کلا اور کلاکاروں کے لیے وقف کر رکھی ہے

فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کو فروغ

 آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے غفور الدین میواتی جوگی نے کہا کہ ہمارا فن صرف ایک کلا نہیں بلکہ اس خطے میں ہندو مسلم اتحاد کی علامت بھی ہے_ وہ کہتے ہیں کہ میوات کے جوگی مسلمان ہیں،مگر مہابھارت کے گیت گاتے ہیں، دوسرے ہندو دیوتاؤں کی کہانیاں سناتے ہیں۔ ہندو اور مسلم طریقوں کے امتزاج نے اس ثقافت میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ فن ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے، ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے سے محبت کراتا ہے اور  یہ دلوں کے بیچ پل کا کام کرتا ہے- یہی وجہ ہے کہ اس فن کو زندہ رکھنا بہت ضروری ہے

غفور الدین جوگی
غفور الدین میواتی کے صاحبزادے شاہ رخ خان اور پوتا دانش
 غفور الدین میواتی جوگی آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ میوات کے جوگی اور میو، جو پانڈوان کا کڑا گاتے ہیں، منفرد برادریاں ہیں۔ بعض روایات میں وہ اپنے آپ کو جوگی مانتے ہیں جبکہ بعض مسلمان ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  مہابھارت کے علاوہ، ان کے گیتوں میں شیو اور دیگر ہندو دیوتاؤں کے بارے میں کہانیاں بیان کی گئی ہیں_ کئی صدیوں سے ان کی ثقافت ہندو اور مسلم طریقوں کا امتزاج رہی ہے۔ خاص طور پر میو باشندوں کو راجپوت ہندو کہا جاتا ہے جنہوں نے اورنگ زیب کے زمانے میں اسلام قبول کیا
غفورالدین میواتی جوگی کہتے ہیں کہ صرف چند دہائیاں قبل تک، پانڈوان کا کڑا کافی مشہور تھا، یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ شادی کی تاریخیں طے کرنے کے لیے خاندانی شادیوں میں ان کے دوہے کا ہونا لازمی ہوتا تھا، اس لیے جب بدھا سنگھ دستیاب نہیں ہوتے تھے، تب تک شادی کی تاریخ طے نہیں ہو سکتی تھی- 
ان دنوں غفور الدین کو ایک دن یا رات میں زیادہ سے زیادہ تین شادیوں میں اس روایت کو نبھانا پڑتا ہے، پانڈوان کا کڑا مقامی ثقافت اور زبان کا بہت زیادہ حصہ تھا- وہ کہتے ہیں کہ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اکثر پنچایتوں میں لوگ فیصلہ سازی اور تنازعات کے حل کے عمل میں مدد کے لیے ایسے  دوہے کا حوالہ دیتے تھے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگ پانڈوان کا کڑا سنیں گے تو  اسے ایسا کرنا ضروری سمجھیں گے کیونکہ غفورالدین کے یہ دوہے بہت کچھ  سیکھنے کا موقع دیتے ہیں_ان میں وزن ہے، گیان ہے اور حکمت ہے۔
  غفور الدین کہتے ہیں کہ مودی حکومت نے اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے کئی اقدام کیے جن سے مجھے بھی بہت حوصلہ ملا کیونکہ وزارت ثقافت نے کئی ایسے پروگرام کیے ہیں جس نے اس فن کو نئی زندگی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے_ غفور الدین میواتی جوگی کہتے ہیں کہ حکومت نے بہت سہارا دیا ، سرکاری پروگراموں نے ہمیں نئی زندگی دی، ہمیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے جوہر دکھانے کے مواقع ملے،  اس کے لیے ہم مودی حکومت کے شکر گزار ہیں_ 
وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے فن کو اپنی نسلوں میں منتقل کیا، آج میرا بیٹا اور میرا پوتا اس فن کے محافظ ہیں، میں نے اپنی زندگی میں سب کچھ پا لیا اس فن کو اپنے والد کی امانت کے طور پر قبول کیا تھا اب اپنے بیٹے کے حوالے کیا ہے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ میرا پوتا بھی اس خاندانی وراثت کی لاج رکھے گا