انسانیت کےعلم بردار :استاد امجد علی خان اور سبھا لکشمی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
 انسانیت کے علم بردار :استاد امجد علی خان اور سبھا لکشمی
انسانیت کے علم بردار :استاد امجد علی خان اور سبھا لکشمی

 

 

دولت رحمان/ گوہاٹی

وہ اپنے سرود کے ذریعے جادو پیدا کرتے ہیں اور تو وہیں ان کی اہلیہ بھرت ناٹیم  سےہر کسی  کو مسحور کرتی ہیں۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں سرود کے استاد اُستاد امجد علی خان اور سبھا لکشمی بروہ خان کی۔ آواز دی وائس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مشہور جوڑے نے اپنی شادی، رشتہ، مذہب، موسیقی اور زندگی کے دیگر دلچسپ پہلوؤں کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی ہے۔

ریاست آسام سے تعلق رکھنے والی سبھا لکشمی بروہ کے ساتھ ان کی شادی کے بارے میں پوچھے جانے پراستاد امجد علی خان نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرد اور عورت کے مابین رشتے کا فیصلہ خدا کرتا ہے۔ خدا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون کس سے شادی کرے گا۔ جب میں نےسبھالکشمی کو پہلی بار کولکاتہ میں پرفارم کرتے ہوئے دیکھا تو میرے دل نے کہا کہ انہیں خدا نے صرف میرے لیے ہی دنیا میں بھیجا ہے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم نے تمام بزرگوں سے آشیرواد حاصل کیا۔ میرے سسر پرشورام بروہ کے علاوہ سبھا لکشمی کے تمام رشتہ داروں، بھا ئیوں اور بہنوں نے مجھے بہت پیار دیا ہے۔

سرود کے استاد امجد علی خان نے کہا کہ ہم دونوں ہیومنزم یعنی انسانیت میں یقین رکھتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مذہب انسایت ہے اورلوگوں سے ہمارے رابطے بذریعہ فن ہوتے ہیں۔

سبھا لکشمی نے واضح طور پر کہا کہ ہندوستان میں کسی بھی دوسرے عام خاندان کی طرح ان کے یہاں بھی ابتداً بین المذاہب شادی سے متعلق غیر یقینی صورتحال کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم میرے معاملے میں میرے والدین نے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا۔ میں نے اپنے والدین سے اتنی زیادہ محبت کی تھی کہ ان کے لیے اس تجویز کو نہ کہنا مشکل تھا۔

سبھا لکشمی کا مزید کہنا تھا کہ استاد امجد علی خان سے ملاقات کے بعد میرا خاندان ان کی فطرت، انسان دوستی، فن اور دیگر بہت سی لازوال خوبیوں سے ایک طرح مغلوب ہوگیا۔

awazthevoice

سبھالکشمی نے کہا کہ بلاشبہ ابتدائی طور پر کچھ خدشات تھے جس کا ہر کسی والدین کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک مذہب سے تعلق کا معاملہ ہے تو ہم انسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ جب آپ فنکار ہوتے ہیں تو آپ یکجہتی کی ایک مختلف سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔ ذات پات، عقیدہ اور مذہب کے مسائل ہماری زندگی کو متاثر نہیں کرتے۔

 خاندان کس مذہب کی پیروی کرتا ہے؟

استاد امجد علی خان کے نزدیک ان کے گھر کی چہاردیواری کے اندر صرف انسانیت کی بات ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسیقی کا کوئی مذہب نہیں اور موسیقار ہونے کے ناطے وہ اس دنیا کے تمام مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، البتہ میرے سامعین کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے۔

استاد امجد علی خان نے مختلف مذاہب کے مابین بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے پھیلاؤ کے باوجود ہم مذہب کے نام پر لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مارنے کے لیے تیار ہیں۔

وہ اپنے خاندان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے مرحوم والد استاد حافظ علی خان کو1960 میں ہندوستان کے اس وقت کے صدر ہند ڈاکٹر راجیندر پرساد نے پدم بھوشن سے نوازا تھا۔ میرے والد نے بچپن سے ہی میرے اندر ایک خدا کا تصور بسایا کرتے تھے۔

 وہیں ان کی اہلیہ سبھالکشمی نے کہا کہ ان کا اپنا الگ پوجا کا کمرہ ہے اور ان کے شوہر کی گھر کے اندر اپنی الگ عبادت گاہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے گھر میں مختلف عقائد کے تمام تہوار منائے جاتے ہیں۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ میرے آبائی شہر آسام کے شیو ساگر میں میرے تمام مذاہب کے دوستوں نے عید کیسے منائی تھی۔ کسی بھی تہوار کو منانا دراصل انسانیت کا جشن ہے۔

سبھالکشمی نے کہا کہ یہ بڑے فخر اور خوشی کی بات ہے کہ آسام میں مذہب کبھی بھی کسی رشتے کے درمیان نہیں آتا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ واحد رشتہ جو آسام کے تقریباً تمام علاقوں میں موجود ہے وہ انسانیت اور بھائی چارہ کا رشتہ ہے، اور مجھے امید ہے کہ یہ روایت برقرار رہے گی۔

استاد امجد علی خان نے ہندوستان کی متحدہ طاقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستانیوں کی طرف سے دو ہاتھ جوڑ کر لوگوں کو نمسکار یا سلام کرنا بذات خود باقی دنیا کے لیے ایک گہرا اشارہ ہے۔ اس طرح کا اشارہ بذات خود ایک قوم کے طور پر ہندوستان کی عاجزی اور ہمہ گیر معیار کا بین ثبوت ہے۔

ان کے دو بیٹے امان اور آیان بھی سرود کی دولت سے بہرو بر ہو گئےہیں۔ وہ اسے دل و جان سے چاہتے ہیں، بلکہ ان دونوں نے اس فن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ اگرچہ استاد امجد علی خان بچوں کو سرود سے وابستہ کرنے کا سارا کریڈٹ اپنی اہلیہ سبھا لکشمی کو دیتے ہیں۔

awazthevoice

جب کہ سبھا لکشمی کہتی ہیں کہ انہوں نے صرف ایک ماں کا کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹوں کے لیے کچھ خاص نہیں کیا۔ میں نے انہیں صرف اچھا وقت دیا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ میں نے ان کی زندگی بہت سادہ اور نارمل رکھی۔ میں ان سے کہا کرتی تھی کہ زیادہ اونچی پرواز نہ کریں کیونکہ ایسی صورت میں نیچے گرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں نے انہیں انسانیت کے مذہب کی پیروی کرنے کے لیے تیار کیا ہے۔

استاد امجد علی خان نے انٹرویو کے اختتام پر ہندوستان کے نوجوانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ زندگی میں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے روادار رہیں وہیں سبھا لکشمی نے کہا کہ وہ اپنی جائے پیدائش اور ملک کی ہر طرح سے خدمت کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہیں۔