اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 16-03-2022
داغؔ دہلوی
داغؔ دہلوی

 

 

داغؔ دہلوی کے یوم وفات پرخاص تحریر

غوث سیوانی،نئی دہلی

داغ دہلوی اردو زبان کے ان شاعروں میں شامل ہیں جن کے اشعارعوام کی زبان پر رائج ہیں۔ان کے بے شماراشعارلوگوں کو یاد ہیں۔ جیسے

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا انتظار کیا

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا

وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا

ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ

جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں

سچ تو یہ ہے کہ مرزاغالب کے بعد دبستان دہلی کے جس شاعر نے سب سے زیادہ اپنا اثر چھوڑا،وہ داغؔ تھے۔ان کی زبان کو اس لئے بھی معیاری اور ٹکسالی مانا جاتا تھاکہ ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت لال قلعے میں ہوئی تھی اور انھیں بڑے بڑے اہل علم سے فیض اٹھانے کا موقع ملا تھا۔مرزا غالب بھی ان کی زبان کی پختگی کے قائل تھے۔ ان کا قول نقل کیا جاتاہے:

” داغ کی اردو اتنی عمدہ ہے کہ کسی کی کیا ہوگی۔ذوق نے اردو کواپنی گود میں پالا تھا۔ داغ اس کو نہ صرف پال رہا ہے بلکہ اس کی تعلیم بھی دے رہا ہے۔“

واضح ہوکہ مرزاغالب خود اردوکے وہ عظیم شاعر تھے جنھیں خاص طور پر علمی حلقوں میں پسند کیاگیا مگرداغؔ نے علمی کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی مقبولیت پائی۔

awaz

حیدرآبادمیں مزارداغ پر اہل اردوکا مجمع

کون تھے داغؔ؟

داغؔ ان کا تخلص تھا اوریہی مشہور ہوا،ورنہ ان کا اصل نام تو نواب مرزا خاں تھا۔ 25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی عمر محض چارسال تھی کہ  والد نواب شمس الدین خاں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ وہ فیروزپورجھرکہ کے نواب تھے اور انھیں ایک انگریز افسرکے قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔ چندسال بعد والدہ وزیرخانم نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح وہ اپنی والدہ کے ساتھ قلعہ معلی میں آگئے اور یہیں پرورش پانے لگے۔داغ کا نکاح فاطمہ بیگم سے ہواتھاجو ان کی خالہ زادتھیں۔وہ ایک بچے کے باپ بھی بنے مگربچے کا کم سنی میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔

لال قلعے کی ادبی فضا میں

یہاں شعر وسخن کا ماحول تھاجس میں ان کے ذوق کو جلاملی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ہی ذوقؔ کے شاگرد تھے۔ ایسے میں داغ کو بچپن سے ہی اس استاد شاعر سے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ یہی نہیں دلی کے تمام معروف شعراکا لال قلعے میں اجتماع ہوتااور داغ بھی ان ادبی محفلوں کا حصہ بنتے۔ اس طرح ان کی ادبی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ ایک دن وہ بھی اساتذہ شعرا میں شمار ہونے لگے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوگئی۔

رام پور میں داغؔ 

غدر کے بعد لال قلعہ اجڑا تو داغ کو بھی دہلی کو خیرآباد کہنا پڑا اور وہ رام پور پہنچے، جہاں نواب کلب علی خان، اہل سخن کی سرپرستی کرتے تھے۔ انھوں نے داغ کی قدردانی کی، تنخواہ مقرر کی اوراپنے دربار میں جگہ دی۔

داغ چوبیس سال تک رام پور میں رہے۔ نواب کی تنخواہ پر مزے میں زندگی گزری۔یہیں انہیں کلکتہ کی ایک طوائف سے محبت ہوگئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق میں انھوں نے اس وارداتِ عشق کی تفصیل بیان کی ہے۔وہ اپنی موت سے چندسال قبل تک منی بائی سے رابطےمیں رہے۔ ان کے درمیان خط وکتابت رہی۔

دکن میں داغ

نواب رام پورکلب علی خان کی وفات کے بعد وہ حیدر آباد دکن چلے آئے۔ یہاں بھی انھیں عزت ملی۔ نظام دکن نے انھیں اپنا استاد بنایا اور القابات عطا ہوئے۔ دبیر الدولہ، فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطابات دیئے گئے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک گزر رہا تھاکہ مارچ کی سترہویں تاریخ ، 1905ء میں فالج کی وجہ سے حیدرآباد میں وفات پاگئے۔ان کی قبرآج بھی موجود ہے جو اہل ادب کے لئے زیارت گاہ کا مرتبہ رکھتی ہے۔

شاگردوں کی کثرت

داغؔ صرف نظام حیدرآباد کے ہی استاد نہیں تھے بلکہ ان کے شاگردوں کی تعداد ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے حصے میں جتنے شاگرد آئے،کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ ان کے شاگردوں کا سلسلہ پورے برصغیر میں پھیلا ہوا تھا۔ علامہ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر ، ان کے شاگردوں میں شامل تھے۔ سینکڑوں شعرا خط وکتابت کے ذریعے اصلاح لیتے تھے۔نوح ناروی کو ان کا جانشین مانا جاتا ہے جن کے شاگرد بھی بڑی تعداد میں تھے۔

داغ کی زبان

داغ کی زبان کی داد تمام اہل علم دیتے ہیں۔سادگی ،ان کی نظر میں زبان کا حسن ہے۔ انہوں نے شاعری کو پیچیدہ ترکیبوں، فارسی اور عربی کے ثقیل الفاظ سے بچایا۔ ان کی شاعری میں سیدھی سادی زبان کے ساتھ سلاست وروانگی بھی ہے۔انھیں اپنی زبان دانی کا احساس بھی ہے۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو

کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے