کشمیر میں ہے ایک ’بنگلہ دیش ‘۔

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-12-2021
کشمیر میں ہے ایک ’بنگلہ دیش ‘۔
کشمیر میں ہے ایک ’بنگلہ دیش ‘۔

 

 

آواز دی وائس، سری نگر

ابھی تک آپ بنگلہ دیش کو بطور ملک جانتے ہیں لیکن جنت ارضی کہلانے والی وادی کشمیر میں ایک ایسا گاؤں بھی ہے جسے بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گاؤں شمالی ضلع بانڈی پورہ کے آلوسہ تحصیل میں واقع ہے۔ دارالحکومت سرینگر سے تقریباً 70 کلومیٹر کی دوری پر واقع یہ گاؤں ولر جھیل کے کنارے پر آباد ہے، جو ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ ایک طرف اونچے سر سبز پہاڑ اور دوسری طرف جھیل میں تیرتے شکارے بہت ہی خوبصورت اور دلکش مناظر پیش کرتے ہیں۔

بنگلہ دیش نام کیسے پڑا

بنگلہ دیش گاؤں کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گاؤں کو بنگلہ دیش کیوں کہتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کشمیر کے اس گاؤں کا تعلق 1971 کی  ہندوستان پاکستان جنگ سے ہے۔ جب بنگلہ دیش ملک وجود میں آیا، اسی دوران زوریمنز علاقے میں آگ کی ایک واردات میں درجنوں مکانات خاکستر ہوگئے اور لوگ بے گھر ہو چکے تھے۔پھر انہوں نے اس علاقے سے تھوڑا دور اپنے گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ایک خالی جگہ کا انتخاب کیا اور ایک نئی زندگی گزارنے لگے۔ اپنے نئے گاؤں کا نام بنگلہ دیش رکھنے کا فیصلہ کیا۔ زوریمنز علاقے کے سرپنچ عبدالحالق بٹ نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا 1971 میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین چل رہی تھی جس میں بنگلہ دیش آزاد ہوا۔

awazthevoice

کشمیر کے بنگلہ دیش کی ایک جھیل کا منظر

اسی دوران گاؤں میں آگ لگی۔ کئی مکانات مکمل طور پر جل کر خاکستر ہونے سے گاؤں کے مکین بے گھر ہوگئے تھے۔ اس واردات کے بعد متعدد لوگوں نے نقل مکانی کی اور پاس میں خالی زمین میں گھر بنائے اور وہی آباد ہوئے۔ لوگوں نے گاؤں کا نام رکھنے کے بارے میں سوچا کہ گاؤں کا نام کیا رکھیں پھر ایک بزرگ نے گاؤں کا بنگلہ دیش نام رکھنے کی تجویز دی، جس کے بعد گاؤں کا نام بنگلہ دیش رکھا۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں میں اِس وقت 150 سے زیادہ خاندان ہیں۔ سرکاری دستاویزات پر بھی گاؤں کا نام بنگلہ دیش ہے۔

طلبا جو اسکولوں اور کالجز میں پڑھائی کرتے ہیں ان کی سرٹیفیکٹس پر بھی بنگلہ دیش نام درج ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس گاؤں کا وجود ہوا تو اُس وقت محض پانچ گھر تھے۔ آج یہاں تقریباً 45 خاندان بس رہے ہیں۔

سیاحوں کی جگہ

خوبصورت، دلکش اور حسین­ ترین بنگہ دیش گاؤں صدیوں پرانی 'زنگیر نہر' اور ولر جھیل کے دامن پر واقع ہے۔اس گاؤں کے حقیقی قدرتی ماحول اور مناظر، سال کے چاروں موسموں میں سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ گمنام گاؤں ابھی تک سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔

گاؤں کے مکھیہ غلام حسن نے آواز دی وائس کو بتایا کہ چونکہ یہ گاؤں قدرتی حسن سے مالامال ہے، یہاں کا ذرہ ذرہ قدرتی خوبصورتی کا ایک ایسا نظارہ پیش کرتا کہ وہاں سے گزرنے والا ہر فرد بشر اس کی جانب راغب ہوتا ہے- لیکن بدقسمتی سے انتطامیہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ گاؤں سیاحت کے اعتبار سے لوگوں کی نظروں سے بالکل اوجھل ہو گیا ہے۔ 'گاؤں کے چاروں طرف سرسبز پہاڑ ہیں۔ آب و ہوا بہت ہی اچھی ہے۔

خوبصورت پہاڑوں کے گود میں ولر جھیل اس پورے گاؤں کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہے۔ کشمیر کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر ریاستوں سے بھی لوگ اس گاؤں کو دیکھنے آتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ سیاحوں کے لیے انتظامات بالکل بھی نہیں ہے۔' ضلع پلوامہ کے پانپور سے تعلق رکھنے والا عمر احمد نامی ایک نوجوان اس گاؤں کو دیکھنے آئے، وہ ایک این جی او کے ساتھ وابستہ ہیں۔ گاؤں کی حالت دیکھ کر وہ کافی افسردہ نظر آئے۔

انہوں نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر خوبصورتی کے اعتبار سے مشہور و معروف ہے۔ دنیا میں اسے جنت کا ٹکڑا کہا جاتا ہے۔ جنت کے اس ٹکرے پر قدرتی حُسن سے مالامال ایسے مقامات بھی موجود ہیں جو دنیا کی نظروں سے آج بھی اوجھل ہیں۔ بنگلہ دیش گاؤں بھی ان ہی مقامات میں شامل ہے۔

گاؤں میں سیاحت کے حوالے سے کسی طرح کے انتظامات نہیں ہیں۔ 'جب میں نے سنا کہ کشمیر میں بنگلہ دیش نامی ایک گاؤں ہے، میں حیرت میں پڑ گیا اور اُسی وقت اس گاؤں میں جانے کا ارادہ کر لیا، میں ایک این جی او کے ساتھ وابستہ ہوں، اپنے دوستوں کے ہمراہ یہاں آیا ہوں‏۔ پہلے میں بہت خوش تھا اور بہت بےتاب تھا کہ کب میں اس گاؤں کو دیکھ لوں۔ لیکن یہاں کی حالت دیکھ کر دل ملول ہوا۔ سارے دوست مایوس ہوئے گاؤں کو دیکھ کر '۔ 'گاؤں بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔

awazthevoice

گاوں بنگلہ دیش کا خوبصورت

سڑکوں کی حالت کافی خستہ ہے، جگہ جگہ گہرے گھڑے ہیں۔ گاؤں جانے کے لیے کوئی معلوماتی بورڈ بھی نہیں ہیں۔ بار بار رک کر پوچھنا پڑ رہا تھا کہ کہاں سے جانا ہے۔ ویک اینڈ گزارنے کے لیے بہتر جگہوں میں سے ایک ہے۔ ٹرانسپورٹ سہولیت، ہوٹلنگ اور کھانے کے انتظامات کچھ بہتر کر دیے جائیں۔

گاؤں کے لوگوں کا رہن سہن

آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں تقریبا 300 سے زیادہ افراد آباد ہیں۔ اس گاؤں میں کوئی باہر کا رہائشی نہیں ہے، کشمیر کے دیگر حصوں کی طرح لوگ یہاں رہتے ہیں۔لوگ پوری طرح ولر جھیل پر منحصر ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ دن رات محنت کر کے جھیل سے مچھلیاں اور سنگاڑے نکالتے ہیں اور اسے فروخت کر کے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتے ہیں۔

لوگوں کے مسائل

عبدالخالق بٹ نے بتایا کہ گاؤں میں مناسب سڑکیں، بجلی، طبی سہولیات اور عوامی سہولت کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ ضلع صدر مقام سے محض 30 کلومیٹر کی دوری پر یہ گاؤں واقع ہے، لیکن عوام زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔

awazthevoice

گاوں کا منظر

سڑکیں کھنڈراٹ کا منظر پیش کررہی ہیں، موسم گرما میں جھیل میں پانی کی سطح کافی حد تک بڑھ جاتی ہے جس کے باعث یہ گاؤں پوری وادی سے کٹ ہو جاتا ہے۔ لوگ کشتی کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ کوئی اگر بیمار ہوجائے یا خواتین حاملہ ہوں انہیں بھی کشتی کے ذریعے ہسپتال لے جانا پڑتا ہے۔

صحت کے حوالے سے تو اب تک امید لگائے بیٹھے ہیں۔ 24 گھنٹوں میں سے دو گھنٹے بجلی رہتی ہے۔' عبدالحالق کے بقول یہ علاقہ قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے اگر اس کی قدرتی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر توجہ دی جاتی تو نہ صرف یہ گاؤں ملک بھر میں ایک سیاحتی مقام کے طور پر سامنے آیا ہوتا بلکہ یہاں پر آباد بستی بھی روز گار و معیشت کے اعتبار سے ترقی پزیر ہوتی۔ انہوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ متی گاؤرن علاقہ میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں ۔

awaz